داڑھی کی اہمیت اور اس کی مقدار کا مسئلہ

میں پہلے داڑھی نہیں رکھتا تھا۔ کچھ ملاّ لوگ کافی اعتراض کرتے تھے۔ اب میں نے خشخشی داڑھی رکھ لی ہے۔ مگر کچھ ملاّ لوگ اب بھی پریشان کرتے رہتے ہیں کہ یا تو اسے صاف کراؤ یا بڑھاؤ۔ جب کہ میرے علم میں پیمائش کے بارے میں کوئی حدیث بھی نہیں ہے اور نہ حضرت محمد ﷺ کی بعثت کا یہ مقصد تھا کہ کچھ لوگ داڑھی نہیں رکھ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو داڑھی رکھوانے کے لیے مبعوث کیا ہو۔ لوگ اصل دین کو چھوڑ کر ایسی باتوں میں الجھا دیتے ہیں ۔ داڑھی رکھتے ہیں مگر زندگی غیر اسلامی طریقوں پر گزرتی ہے۔ بہ راہ کرم آپ اس مسئلے پر تفصیل سے قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ کتنی پیمائش کی داڑھی رکھی جائے؟ اگر کوئی داڑھی نہیں رکھتا تو کیا اس کا داخلہ جنت میں نہ ہوسکے گا؟

رشتے داروں کے ساتھ حسن ِ سلوک

ہمارے بعض رشتے دار کالا جادو کرتے ہیں ۔ کیا یہ مناسب ہوگا کہ ان سے تعلقات باقی رکھے جائیں ؟ یا ان سے بالکلیہ قطع تعلق کرلینا چاہیے؟

اولاد کے درمیان مال و جائیداد کی منصفانہ تقسیم

درج ذیل مسئلے میں شریعت کی روشنی میں مشورہ درکار ہے:
میرے چھ لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں ۔ اہلیہ کا انتقال بارہ سال قبل ہوچکا ہے۔ تمام بچوں کی شادیاں ہوچکی ہیں ۔ لڑکیاں اپنے اپنے گھروں میں ہیں ۔ لڑکوں میں سے ہر ایک کی شادی کرکے میں نے اس کے لیے الگ رہائش فراہم کردی، جس میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہا ہے۔ان کے لیے الگ الگ رہائش فراہم کرنے میں آراضی کی خریداری اور مکان کی تعمیر میں ، جو سرمایہ لگا اس میں سے کچھ میرا اور کچھ لڑکوں کا کمایا ہوا تھا۔ ظاہر ہے لڑکوں کا فراہم کردہ سرمایہ برابر نہیں تھا۔ ہر ایک نے حسب ِ توفیق سرمایہ فراہم کیا، بعض نے کچھ بھی نہیں کیا۔ چھوٹے لڑکے کے لیے مکان کی تعمیر میں اس کے بھائیوں نے بھی مدد کی۔ لڑکوں نے باہمی رضا مندی سے یہ تقسیم منظور کرلی ہے۔ اب میرے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ تینوں لڑکیوں کا کیا ہو؟ ان کے حصے میں تو کچھ نہیں آیا۔ اگر آنا چاہیے تو کیا اور کس طرح ؟ واضح رہے کہ میری تھوڑی سی آبائی جائیداد وطن میں ہے، جو میرے بھائی کی تحویل میں ہے۔ ابھی اس کی تقسیم عمل میں نہیں آئی ہے۔
مسئلہ تقسیمِ وراثت کا نہیں ہے، بلکہ باہمی رضا مندی سے تقسیم اور منصفانہ تقسیم کا ہے، تاکہ بعد میں ان میں کوئی نزاع نہ پیدا ہو۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ میں اپنے مفید مشورے سے نوازیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرے تمام لڑکے اور ان کی فیملی میرا بہت خیال رکھتے ہیں ۔

خواتین اور زیارت ِ قبور

عورتوں کے قبرستان جانے کا کیا حکم ہے؟ عموماً لوگ انھیں قبرستان جانے سے روکتے ہیں ۔ بعض حضرات حرام قرار دیتے ہیں ۔ میں سوچتی ہوں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے زیارت ِ قبور کی ترغیب دی ہے اور فرمایا ہے کہ اس سے دلوں میں رقّت پیدا ہوتی اور آخرت کی یاد آتی ہے۔ تو اس سے عورتوں کو کیوں محروم رکھا جائے؟ بہ راہ کرم احادیث ِ نبوی کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ کیا عورتوں کے لیے قبرستان جانے کی بالکلیہ ممانعت ہے؟

پرد ہ – آزاد خیالی اور رواج پرستی کے درمیان

آپ نے پردہ کے تعلق سے جو اظہار ِ خیال فرمایا ہے وہ قطعی غلط ہے۔ حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ تفہیم القرآن جلد چہارم میں سورۂ احزاب کی تفسیر فرماتے ہوئے مذکورہ بالا غلط تعبیر کی تردید فرماتے ہیں ۔ جلد چہارمص: ۱۲۹ پر جو سیر حاصل بحث مولانا نے فرمائی ہے اس کو پیش نظر رکھیے اور اپنا جواب ملاحظہ فرمائیے تو حقیقت کا علم ہوگا۔ پتہ نہیں ، کیوں ؟ جماعت اسلامی کے علما اس طرح کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے ارکان و کارکنان ہی نہیں ، بلکہ جماعت سے دور کا تعلق اور حسن ِ ظن رکھنے والوں کے ہاں باستر مکمل مع چہرہ کے ڈھانپنے والے برقع کا چلن ہے، بلکہ سخت پابندی کے ساتھ ہے۔ پھر آپ کا طرز ِ عمل کس طرح کے برقع کے استعمال کا ہے؟ یعنی آپ اپنے اہلِ خاندان اور اہلیہ محترمہ کو مروجہ طرز کا برقع استعمال کرواتے ہیں یا پھر اسی طرح کا، جس کا اظہار آپ نے اپنے اس جواب میں دیا ہے؟

ملازمت پیشہ خواتین کا پردہ

پردہ کے بارے میں کچھ احکام سوال و جواب کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک اور سوال ذہن میں ابھرا کہ جو عورتیں ملازمت پیشہ ہیں ان کے لیے پردہ کا التزام کرنا اکثر ناممکن ہوتا ہے۔ کیوں کہ دفتروں میں ان کے کام ہی ایسے ہوتے ہیں جہاں ہر وقت ان کے لیے پردہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مثلاً جو خواتین پولیس میں بھرتی ہوتی ہیں ان کو چوبیس گھنٹے کھڑے کھڑے ڈیوٹی دینی پڑتی ہے؟

حجاب اور برقعہ

کہاجاتا ہے کہ قرآن میں پردے کے تناظر میں برقعہ پہننے کا صریح حکم موجود نہیں ہے۔ اس لیے صرف اوڑھنی سے سر اور چہرے کا پردہ کرنا اور ساتھ ہی جہاں تک ہوسکے جسم کا ڈھکنا کافی ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتاہے کہ چوں کہ ہمارے یہاں کے مخصوص حالات کی وجہ سے تلاشی کے دوران برقعہ والی خواتین کا برقعہ ہٹا کر تلاشی لی جاتی ہے اس لیے بھی برقعہ نہ پہننا بہتر ہے۔
جہاں تک میرا علم ہے، برقعہ اوڑھنا اسلامی شعار ہے اور برقعہ یا حجاب کا صریح حکم قرآن میں ڈھونڈنا ناروا ہے۔ جب کہ سنت سے حجاب کی اہمیت اور فرضیت واضح ہے۔
دو پٹے، اوڑھنی یا چادر سے سر، چہرے اور جسم کو ڈھانکنا میرے خیال میں ناکافی ہی نہیں ، بلکہ دعوت ِ نظارہ کے مترادف ہے۔ چوں کہ عموماً ہم لوگ باہر نکلتے وقت اہتمام سے نئے، خوش رنگ اور نظر کو بھلے لگنے والے کپڑے زیب تن کرتے ہیں ، ساتھ ہی عورتیں عام استعمال کے کپڑے بھی فیشن کو ملحوظ رکھ کر خریدتی ہیں ۔ اس لیے اس طرح کے کپڑوں کو پردہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے؟ جہاں تک تلاشی کے دوران تنگ کیے جانے کا سوال ہے تو میرے خیال میں اس وجہ سے حجاب ترک کرنا بھی گناہ ہے۔ اسے ہم اضطراری حالت تو نہیں کہہ سکتے۔ بھلے ہی انسان دل کو مطمئن کرنے کے لیے کتنے بھی بہانے بنالے، ویسے بھی پردہ دار خواتین کے ساتھ بلاوجہ زیادتی کوئی بھی غیرمسلم، چاہے وہ پولیس والا ہو یا فوجی، نہیں کرتا۔ الا احیاناً۔
یونیورسٹی، آفسوں اور خصوصاً ہسپتالوں میں لڑکے اور لڑکیاں سارا سارا دن گفتگو اور ہنسنے مسکرانے میں گزار دیتے ہیں ۔ سمجھانے یا منع کرنے پر کہا جاتا ہے کہ ہم تو اسلام کے بارے میں Discussکرتے ہیں ۔ یہ کون سا اسلام ہے، جس پر اجنبی اور غیرمحرم مرد و زن بے پردگی اور عریانیت کے ساتھ مل کر Discussکرسکتے ہیں ۔ ایک توحرام کام اور پھر اس پر ’’اسلام پر "Discussکرکے ثواب بھی کمایا جارہاہے۔
یہ حالات سخت ذہنی کوفت کاسبب ہیں ، لیکن ہماری بات اس لیے اثر نہیں کرتی کہ ہم دینی تعلیم تو برائے نام بھی کسی مدرسے سے حاصل نہیں کرپائے، صرف مروجہ تعلیم کے ساتھ گھر پر والدین کی توجہ سے تھوڑا سا دین کا علم ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ مذکورہ بالا امور پر خصوصی توجہ سے ہماری رہ نمائی فرمایئے۔ شاید کہ کسی پر اثر ہو۔

مسئلہ ظہار

ہمارے علاقے میں ایک عجیب طرح کا مسئلہ پیش آیا۔ ایک صاحب نے کسی بات پر ناراض ہوکر اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ ’’تم میرے لیے حضرت فاطمہؓ کے برابر ہو۔‘‘ بعد میں وہ پشیمان ہوئے۔ مقامی علماء سے مسئلہ معلوم کیا۔ بعض علماء کی یہ رائے سامنے آئی کہ اس جملے سے ظہار ثابت ہوگیا۔ اب بیوی اس شخص پر حرام ہوگئی۔ظہار کا مسئلہ قرآن میں سورۂ مجادلہ کے شروع میں بیان ہوا ہے۔ میں نے بعض کتب ِ تفسیر سے رجوع کیا، لیکن مسئلہ منقح ہوکر میرے سامنے نہ آسکا۔ تفہیم القرآن میں مولانا مودودیؒ نے اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ لیکن انھوں نے اس سلسلے میں فقہاء کے اختلافات بیان کردیے ہیں ۔ اپنی طرف سے کوئی قطعی بات نہیں لکھی ہے۔ میری نظر میں ظہار میں صرف خونی رشتے ماں ، بہن، بیٹی ، خالہ، پھوپھی وغیرہ یا رضاعت کے رشتے ہی آتے ہیں ۔ اس میں عام عورتوں کو بھی شامل کرنا نصِّ قرآن کے خلاف ہے۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا صورت مسئولہ میں ظہار ثابت ہوگیا؟

دورانِ عدّت عورت کا لباس

کیا شوہر کی وفات کے بعد عورت کے لیے دورانِ عدت سونے یا چاندی کے زیورات، جیسے چوڑی، بندے، انگوٹھی اور سونے کی زنجیر (Chain)والی گھڑی کا استعمال جائز ہے یا ناجائز؟ زیور کے علاوہ اس کو سرمہ لگانے اور سر میں تیل ڈالنے کی اجازت ہے یا نہیں ؟ اسے کیسا لباس پہننا چاہیے؟

طلاق کے بعد حلالہ کا حکم

میں فوج میں ملازمت کر رہا ہوں ۔ میرے بہت سے ساتھی غیرمسلم ہیں ، وہ وقتاً فوقتاً اسلام پر اعتراض کرتے رہتے ہیں ۔ ایک موقعے پر ایک صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ ’’اسلام میں بیوی کو طلاق دینے کے بعد اسے واپس لینے کے لیے حلالہ کرانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہ تو طوائف گیری جیسا کام ہوا۔‘‘ میں نے انھیں جواب دینے کی کوشش کی لیکن اس جواب سے وہ مطمئن نہ ہوسکے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس اعتراض کا اطمینان بخش جواب مرحمت فرمائیں ۔ یہ اعتراض عموماً غیرمسلموں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔