راقم الحروف نے پچھلے دنوں آپ کی تصنیف الجہاد فی الاسلام کا مطالعہ کیا۔ اسلام کا قانون صلح وجنگ کے باب میں صفحہ۲۴۰ ضمن(۶) میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ:
’’ذمی خواہ کیسے ہی جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمانوں کو قتل کرنا، نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنا، یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا اس کے حق میں ناقض ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں عقد ذمہ باقی نہیں رہتا۔ ایک یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکلے اور دشمنوں سے جاملے۔ دوسرے یہ کہ حکومت اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کرکے فتنہ وفساد برپا کرے۔‘‘
فدوی کو اس امر سے اختلاف ہے او رمیں اسے قرآن وسنت کے مطابق نہیں سمجھتا۔ میری تحقیق یہ ہے کہ نبیؐ کی شان میں گستاخی کرنا اور دوسرے امور جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے،ان سے ذِمّی کا عقد ذمہ ٹو ٹ جاتا ہے۔آپ نے اپنی راے کی تائید میں فتح القدیر جلد ۴ اور بدائع صفحہ ۱۱۳کا حوالہ دیا ہے۔لیکن دوسری طرف علامہ ابن تیمیہؒ نے الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول کے نام سے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے۔ زاد المعاد،تاریخ الخلفاء، عون المعبود، نیل الاوطار جیسی کتابوں میں علماے سلف کے دلائل آپ کی راے کے خلاف ہیں ۔یہاں ایک حدیث کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں : أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ فَأَبْطَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَمَهَا ({ FR 2054 }) ’’حضرت علی ؓ کی روایت ہے کہ ایک یہودیہ نبیؐ کے خلاف بدزبانی کرتی تھی اور آپؐ پر باتیں چھانٹتی رہتی تھی۔ ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹا یہاں تک کہ وہ مر گئی۔ نبیؐنے اس کے خون کو راے گاں قرار دے دیا ۔‘‘
ضمناً یہ بھی بیان کردوں کہ یہاں کے ایک مقامی اہل حدیث عالم نے آپ کی اس راے کے خلاف ایک مضمون بعنوان’’ مولانا مودودی کی ایک غلطی‘‘ شائع کیا ہے اور اس میں متعدد احادیث اور علما کے فتاویٰ درج کیے ہیں ۔