مملکت کی سربراہی

کہا جاتا ہے کہ عورت کسی اسلامی ریاست کی سربراہ نہیں ہوسکتی۔ اگر یہ صحیح ہے تو مولانا مودودیؒ نے مادرِ ملت فاطمہ جناح کے بارے میں جو رائے اختیار کی اسے کیا سمجھا جائے؟

ذِمیوں کے پرسنل لا کاحق

کیا ہندوئوں کا قومی قانون(Personal Law) ہندوئوں پر نافذ ہوگا یا نہیں ؟ میر امدعا یہ ہے کہ ہندو اپنے قانونِ وراثت،مشترکہ فیملی سسٹم اور متبنّٰی وغیرہ بنانے کے قواعد( مطابق منوشاستر) کے مطابق زندگی بسر کریں گے یا نہیں ؟ دوسری دریافت طلب چیز یہ ہے کہ کیا قرآن کے فوج داری اور دیوانی احکام مسلمانوں کی طرح ہندوئوں پر بھی حاوی ہوں گے؟

ملکی نظم ونسق میں ذِمیوں کی شرکت

کیا ذمی ملک کے نظم و نسق میں برابر کے شریک ہوسکتے ہیں ؟کیا پولیس ،فوج اور قانون نافذ کرنے والی جماعت میں ہندوئوں کاحصہ ہوگا ؟اگر نہیں تو کیا ہندوئوں کی اکثریت والے صوبوں میں آپ مسلمانوں کے لیے وہ پوزیشن قبول کرنے کو تیار ہوں گے جو کہ آپ حکومتِ الٰہیہ میں ہندوئوں کو دیں گے؟

آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’جو بھی اس حکومت کے اصول کو تسلیم کرلے وہ اس کے چلانے میں حصے دار ہوسکتا ہے،خواہ وہ ہندو زادہ ہو یا سکھ زادہ‘‘({ FR 2278 }) براہ کر م اس کی توضیح کیجیے کہ ایک ہندو،ہندو رہتے ہوئے بھی کیا آپ کی حکومت کے اُصولوں پر ایمان لا کر اسے چلانے میں شریک ہوسکتا ہے؟

غیرمسلموں کاحقِ تبلیغ

آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’ہندوئوں کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی،ان کو مذہبی تعلیم کا انتظام کرنے کاحق دیا جائے گا‘‘۔مگر آپ نے یہ نہیں تحریر فرمایا کہ آیا ہندوئوں کو تبلیغ کا حق بھی حاصل ہوگا یا نہیں ؟

امریکا سے میرے ایک دوست نے یہ خط لکھا ہے کہ وہاں کے عرب اور مسلمان طلبہ آپ سے ان دو سوالات کے جوابات چاہتے ہیں ۔ سوالات یہ ہیں :
۱- کیا اسلامی ملکوں کو دوسرے مذاہب کے مبلغوں پر پابندی لگانی چاہیے۔ خاص طور پر عیسائی مشنریوں پر؟ اس بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے؟
۲-اگر پابندی لگانا دینی طور پر لازم ہے تو عیسائی بھی اپنے ممالک میں مسلمان مبلغوں پر پابندی لگا دیں گے۔ اس صورت میں اسلام کا پیغام عالم انسانیت تک کیسے پہنچایا جا سکتا ہے؟

کیا اسلامی ملک میں ان مغربی مستشرقین،غیر مسلم اسکالرز او رپروفیسروں کو تعلیم یا تقریر کے لیے مدعو کیا جاسکتا ہے جنھوں نے اپنے نقطۂ نظر سے اسلام کے موضوعات پر کتابیں لکھتے ہوئے نہ صرف اسلام پر بے جا تنقیدی تبصرے کیے ہیں ، بلکہ عمداً یا کم علمی وتعصب سے اسلامی تاریخ لکھنے میں حضور اکرم ﷺ، اہل بیت، خلفاے راشدین، صحابۂ کرامؓ وائمۂ کرام (جن پر اسلام اور مسلمانوں کو فخر ہے) کی شان میں نازیبا فقرات لکھ کر ہدف ملامت بنایا ہے۔مثلاً امریکی و برطانوی قابل ترین پروفیسروں کی نظر ثانی شدہ انسائی کلو پیڈیا برٹانیکا میں بھی دیگر اعتراضات کے علاوہ رسول مقبو ل کی ازواج مطہراتؓ کو (concubines)(لونڈیاں ) لکھا ہے۔ ان میں سے اکثر کے یہاں آکر لیکچر اور خطبات دینے اور ان کی تشہیر کرنے پر کیا اسلامی حکومت بالکل پابندی عائد نہ کردے گی؟یا ان کتابوں اور زہر آلودہ لٹریچر کی ہماری لائبریریوں میں موجودگی گوارا کی جاسکتی ہے؟حکومت ان کے جوابات وتردید شائع کرنے ،ان کی تصحیح کرانے یا ان سے رجوع کرانے کے لیے کیا اقدام کرسکتی ہے؟

دستور کی تنسیخ کی صورت میں دارالاسلام اور دارالحرب کی بحث

جب سابق دستوریہ نے قرار داد مقاصد پاس کی تھی تب جماعت اسلامی نے پاکستان کو ’’دارالاسلام‘‘ تسلیم کیا تھا ۔اب جب کہ گورنر جنرل صاحب بہادر نے دستوریہ کو بمع اپنی تمام قرار دادوں اور نامکمل آئین کے ختم کردیا ہے،موجودہ دور میں آپ کے نزدیک پاکستان دارالاسلام ہے یا دارالحرب؟

دارالاسلام کی ایک نئی تعریف

دارالکفر، دارالحرب اور دارالاسلام کی صحیح تعریف کیا ہے؟دارالکفراور دارالاسلام میں کس چیز کو ہم اصلی اور بنیادی قرار دے سکتے ہیں ؟ مجھے اس مسئلے میں تردّد مولانا حسین احمد صاحب مدنی ؒ کی حسب ذیل عبارت سے ہوا ہے؟
’’اگر کسی ملک میں اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریک ہوں اور ان کے مذہبی ودینی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو، تو وہ ملک حضرت شاہ صاحب ({ FR 2280 }) کے نزدیک بے شبہہ دارالاسلام ہوگا اور ازروے شرع مسلمانوں کا فرض ہوگا کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لیے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں ۔ ‘‘ ({ FR 2281 })
آپ اس مسئلے میں میری راہ نمائی فرمائیں ۔

اسلامی حکومت یا فرقہ وارانہ حکومت

مولانا حسین احمد صاحب مدنی مرحوم کی تصنیف’’نقش حیات‘‘ کی بعض قابل اعتراض عبارتوں کے بارے میں آپ سے پہلے خط وکتابت ہوئی تھی۔اس کے بعد میں نے مولانا مرحوم کو بعض دوسری عبارتوں کی طرف توجہ دلائی تھی اور انھوں نے وعدہ فرمالیا تھا کہ وہ آئندہ اڈیشن میں قابل اعتراض عبارتوں کو یا تو بالکل تبدیل فرمادیں گے یا اس میں ایسی ترمیم فرمائیں گے کہ کسی کو ان کی طرف غیر اسلامی نظریات کے منسوب کرنے کا موقع نہ مل سکے گا۔مولانا کا جواب اس سلسلے میں درج ذیل ہے:
’’یہ اعتراض کہ حضرت سیّد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کا ارادہ کرنے والا اور صرف انگریزوں کانکالنے والا میں قرار دیتا ہوں ،بالکل خلاف واقعہ اور تصریحات سے روگردانی ہے۔بہرحال یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ، اور اگر بالفرض کوئی عبارت ایسی ہے جس کی دلالت مطابقی یہی ہے،دوسری توجیہ اس میں نہیں ہوسکتی، تو وہ غلط ہے۔ ہندستان کی حکومت کے شرم ناک کارناموں سے مجھے انکار نہیں ،پھر میں کس طرح اس کو دارالاسلام قرار دے سکتا ہوں ؟لیکن فرقہ وارانہ حکومت اور سیکولر اسٹیٹ کے درمیان بھی تو ایسی صورتیں ہیں جن کو اسلام قبول کرسکتاہے۔مغلیہ حکومت کو دیکھیے اور غور فرمایے۔‘‘
مولانا مرحوم کے جواب سے اس بات کی خوشی ضرور ہوئی کہ حضرت مولانا دارالکفر کو دارالاسلام نہیں سمجھتے، مگر اس کا افسوس بھی ہوا کہ میں ’’نقش حیات‘‘ کی تصریحات اور مولانا کے اس جواب میں کوئی مطابقت نہیں پاتا۔ میں اس سلسلے میں ابھی مزید خط وکتابت کی ضرورت محسوس کرتا ہوں ۔