ام المومنین حضرت عائشہؓ کا کم سنی میں نکاح

عمر عائشہؓ کے حوالے سے آپ کا جواب نظر سے گزرا۔ غالباً اس حوالے سے جناب حکیم نیاز احمد کی کتاب ’کشف الغمۃ‘ مولانا حبیب الرحمن کاندھلوی، علاّمہ تمنا عمادی، جناب رحمت اللہ طارق اور علامہ محمود احمد عباسی کی تحریروں کو سامنے نہیں رکھا گیا ہے۔ شاید آپ کے زیر مطالعہ رہی ہوں ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ جناب حکیم نیاز احمد کے دلائل کافی مضبوط ہیں ۔ اگر ممکن ہو تو اس حوالے سے تھوڑی تسلی کرادیں ۔

ام المومنین حضرت عائشہؓ کا کم سنی میں نکاح

ایک خلش ہے، جس نے مجھے پریشان اور بے چین کر رکھا ہے۔ وہ ہے حضور ﷺ کا حضرت عائشہؓ کے ساتھ کم سنی میں شادی کرنا۔ اس سلسلے میں جو دلائل دیے جاتے ہیں ان میں کوئی وزن اور جان نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آٹھ اور نو سال کی عمر میں عرب کی لڑکی شادی کے قابل ہوجاتی ہے اور چالیس سال کے بعد ہی بوڑھی ہوجاتی ہے۔ یہ بات اس لیے صحیح نہیں ہے کہ حضوؐر نے حضرت خدیجہؓ سے چالیس سال کی عمر میں شادی کی اور بچے بھی حضرت خدیجہؓ سے چالیس سال کی عمر کے بعد ہی ہوئے ہیں ۔ خود حضور ﷺ نے اپنی دختر نیک اختر حضرت فاطمہؓ کی شادی اٹھارہ سال کی عمر میں کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہؓ عالمہ و فاضلہ تھیں ، یہ سب صحیح، لیکن ایک ایسی لڑکی، جو کہ انتہائی کم سن ہو، جو شادی کے بعد بھی گڑیوں کا کھیل کھیلتی ہو اس سے کیا شادی کرنا ضروری تھا؟ اللہ تو کسی اور خاتون کو یہ صلاحیتیں عطا کرسکتا تھا۔ سب سے بڑا اعتراض، جو حضوؐر کے خلاف کیا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ اپنی کبر سنی کی حالت میں حضوؐر نے کیسے ایک نوسالہ لڑکی سے شادی کی اور یہ بھی کہیں درج نہیں کہ یہ اجازت صرف حضوؐر کے لیے ہے۔ اس لیے آج اگر کوئی بوالہوس بوڑھا کم سن بچی سے شادی کرتا ہے تو اسے کون روک سکے گا؟ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں یہ رواج تھا اس لیے کسی نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا تھا؟ مگر جو دین آخری دین تھا اور قیامت تک کے لیے تھا اس میں تو اس پر روک ہونی چاہیے تھی؟ بہ راہ کرم اس کا جواب دیں ۔

رضاعی ماں  سے رسول اللہ ﷺ کی بے توجہی؟

ضرت حلیمہ سعدیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں تھیں ۔ انہوں نے آپ کوبچپن میں دودھ پلایا تھا ۔ کتبِ سیرت میں نہیں ملتا کہ آپؐ نے کبھی ان سے ملاقات کے لیے سفر کیا ہو۔ نہ نبی بنائے جانے سے پہلے نہ نبی بنائے جانے کے بعد ۔ اسلام میں رشتوں کا پاس و لحاظ رکھنے کی بڑی تاکید آئی ہے ۔ اس سلسلے میں خود آپ ؐ کے بہت سے ارشادات ہیں ۔ پھر خود آپ نے اس کاعملی مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟بہ راہ ِ کرم اس اشکال کو دور فرمادیں ۔

رسول اللہﷺ کے بچپن کے بعض واقعات

جناب مائل خیرآبادی نے بچوں کے لیے ایک کتاب’ بڑوں کا بچپن‘کے نام سے لکھی ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے دو واقعات بیان کیے ہیں : پہلا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ کسی لڑکے سے آپؐ کو معلوم ہوا کہ شہر میں ناچ گانے کی محفل لگتی ہے اورلوگ کھیل تماشوں سے دل بہلاتے ہیں ۔ آپ ؐ کے دل میں انہیں دیکھنے کا شوق ہوا ، لیکن اللہ تعالیٰ کویہ منظور تھا کہ آپؐ بچپن میں بھی پاک صاف اورنیک رہیں ۔ چنانچہ آپ جاتےجاتے راستے میں کسی کام سے رک گئے اور پھر نیند آگئی ۔ آپ سو گئے اورصبح تک سوتے رہے ۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ خانۂ کعبہ کی دیوار گرگئی۔ مکہ کے لوگوں نے مل جل کر اسے اُٹھانا شروع کیا ۔ اُٹھانے والوں میں آپ ؐ اورآپ کے چچا عباسؓ بھی شامل تھے۔ عباسؓ نے آپ کا کندھا۔ چھلا ہوا دیکھا تو آپؐ کا تہہ بندکھول کر آپ کے کندھے پررکھ دیا ۔ آپ ؐ مارے شرم کے بے ہوش ہوکر گرپڑے ۔ تھوڑی دیر میں ہوش آیا تو آپ کے منہ پر تھا۔ ’’میرا تہبند ، میرا تہبند ‘‘ جب آپ کا تہہ بند باندھ دیا گیا تو آپ ؐ کا دل ٹھکانے ہوا ۔
ان دونوں واقعات کے سلسلے میں بعض حضرات نے سخت اعتراض کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان واقعات سے اللہ کے رسول ﷺ کی توہین ہوتی ہے ۔ یہ واقعات ثابت نہیں ہیں ۔ اس لیے انہیں مذکورہ کتاب سے نکال دینا چاہیے۔بہ راہِ کرم اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا یہ دونوں واقعات غیر مستند ہیں ؟

گدھا- رسول اللہ ﷺکی سواری؟

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع شدہ جناب طالب ہاشمی کی کتاب ’خیر البشر کے چالیس جاں نثار ‘ میں حضرت معاذ بن جبل ؓ کے تذکرہ میں ایک جگہ ان کے حوالے سے لکھا ہوا ہے :’’ میں ایک دن گدھے پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوارتھا اور آپؐ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا ۔‘‘ (ص۳۰۷:) یہ بات بڑی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے ۔ گدھا چھوٹے قد اورمعمولی قسم کا جانورہے ۔ اس پر سواری کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ اس کی جسامت اتنی مختصر ہوتی ہے کہ دو اشخاص اس پر سوارہی نہیں ہوسکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گدھے کی سواری زیب نہیں دیتی اورآپؐ کے پیچھے ایک صحابی کا بیٹھنا عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔
مجھے سنہ۲۰۱۱ء میں حج کی سعادت نصیب ہوئی اورتقریباً پینتالیس دنوں تک سعودی عرب میں میرا قیام رہا ۔ اس عرصہ میں مکہ معظمہ ، منیٰ ، عرفات اور مدینہ منورہ وغیر جانا ہوا ۔ پورے سفر میں کہیں بھی مجھے گدھا نظر نہیں آیا ۔کہیں ایسا تونہیں ہے کہ مصنف نے انگریزی الفاظ ASSیا DONKEY کا ترجمہ ’گدھا ‘ کردیا ہو ، جب کہ ان الفاظ کا اطلاق خچر پر بھی ہوتا ہے ۔ جسمانی ساخت میں خچر گھوڑے سے کم تر، لیکن اس کی نسل سے ہوتا ہے ۔ اسے سواری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، جب کہ گدھے کوکہیں سوار ی کے لیے نہیں استعمال کیا جاتا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس طرح کے جملوں کا استعمال بے ادبی محسوس ہوتی ہے ۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایسے جملے خارج کردیے جائیں ۔

رسول اللہ ﷺ کی طبعی نظافت

آپ نے اپنے ایک مضمون بہ عنوان ’رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں ‘ (شائع شدہ ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی نومبر ۲۰۰۹ء) میں رسول اکرم ﷺ کی خانگی مصروفیات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ اپنے کپڑوں سے جوئیں خود نکال لیا کرتے تھے۔‘‘ یہ کام آپؐ کی طبعی نظافت کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ آپؐ تو صفائی ستھرائی کا نمونہ تھے۔ اس لیے حدیث سمجھنے میں زحمت محسوس ہو رہی ہے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔

حدیث نبوی کی صحت و عدمِ صحت کی پہچان

’کیا غیر مسلم ممالک میں سودی لین دین جائز ہے؟‘ کے عنوان سے آں جناب نے ایک سوال کا جو جواب دیا ہے اس میں سودی لین دین کی شناعت بیان کرتے ہوئے ایک حدیث نقل کی ہے، جس کا مضمون یہ ہے: ’’سود کے گناہ کے ستر درجے ہیں ۔ اس کا سب سے کم تر درجہ ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔‘‘ یہ حدیث مجھے ’موضوع‘ یعنی من گھڑت معلوم ہوتی ہے۔ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، اس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف مشتبہ معلوم ہوتی ہے۔ آپ ایسے ناشائستہ انداز سے کوئی بات کہہ ہی نہیں سکتے۔ سود کی حرمت ثابت کرنے والی اور بھی بہت سی احادیث ہیں ۔ اس لیے ایسی غیر معتبر اور ثقاہت سے گری ہوئی احادیث سے اجتناب اولیٰ ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہؓ کا کم سنی میں نکاح

عمر عائشہؓ کے حوالے سے آپ کا جواب نظر سے گزرا۔ غالباً اس حوالے سے جناب حکیم نیاز احمد کی کتاب ’کشف الغمۃ‘ مولانا حبیب الرحمن کاندھلوی، علاّمہ تمنا عمادی، جناب رحمت اللہ طارق اور علامہ محمود احمد عباسی کی تحریروں کو سامنے نہیں رکھا گیا ہے۔ شاید آپ کے زیر مطالعہ رہی ہوں ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ جناب حکیم نیاز احمد کے دلائل کافی مضبوط ہیں ۔ اگر ممکن ہو تو اس حوالے سے تھوڑی تسلی کرادیں ۔

کیا آں حضرت ﷺ نے بعض خواتین کو طلاق دی ہے؟

ایک رسالے میں ایک واقعہ نظر سے گزرا کہ حضور پاک ﷺ نے اسماء بنت نعمان نامی خاتون سے شادی کی، پھر خلوت سے پہلے طلاق دے دی اور بعد میں اسماء بنت نعمان نے نکاح ثانی کرلیا۔ مذکورہ واقعہ پڑھ کر حد درجہ حیرانی و پریشانی ہوئی، کیوں کہ حضور اقدسؐ کی نسبت سے یہ قصہ بالکل ناقابل فہم محسوس ہوتا ہے۔ بعض مقامی علماء کرام سے ذکر کیا تو وہ بھی ناقابل فہم بتلاتے ہیں ۔ لہٰذا میں بہت کرب و بے چینی کے عالم میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس واقعے کی تحقیق کرکے جواب سے مشکور فرمائیں ۔