میت کو دوبارہ غسل دینے کی ضرورت نہیں
میت کو غسل دینے کے بعد اسے کفن پہنادیا گیا۔ اس کے بعد پیشاب پاخانہ یا کچھ نجاست جسم سے نکلی تو کیا دوبارہ غسل دینا ضروری ہے؟
میت کو غسل دینے کے بعد اسے کفن پہنادیا گیا۔ اس کے بعد پیشاب پاخانہ یا کچھ نجاست جسم سے نکلی تو کیا دوبارہ غسل دینا ضروری ہے؟
ہمارے ايک عزيز بہت بيمار رہتے ہيں۔ پچاسي(۸۵) برس عمر ہے۔ پنج وقتہ نمازي ہيں۔ ان کو پيشاب بہت آتا ہے۔ رات ميں کبھي کبھي بستر پر بھي ہو جاتا ہے۔ سب کے مشورے سے وہ رات ميں پيمپرباندھ ليتے ہيں۔ دن کے اوقات ميں بار بار پيشاب کرنے باتھ روم جاتے ہيں، جو … Read more
(۲)پانی سے طہارت کلی حاصل ہوجاتی ہے یا نہیں ؟ یہاں مٹی مشکل سے ملےگا اس لیے ڈھیلوں کا استعمال مشکل ہے؟
(۱)امریکہ سے مجھے ایک مسلم نوجوان طالب علم نے لکھا ہے کہ وہاں ’ضرورت‘ سے فارغ ہونے کے بعد طہارت کے لیے پانی کےبجائے صرف کاغذ ہی استعمال کیاجاتا ہے۔ تو کیا اس طریقے سے طہارت کے بعد وضو کرکے نماز پڑھی جاسکتی ہے؟میں نے جواب میں ان کو لکھا تھا کہ اگر وہ کاغذ … Read more
سور کے بالوں کے برش بناکر فروخت کیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی مسلمان کے لیے اس کا کارخانہ قائم کرنا اور انھیں فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اورایسے شخص کے اس ذریعہ معاش کا کیا حکم ہے؟
مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع شدہ کتاب ’فقہ السنہ‘ میں روزوں کے ذیل میں بہ عنوان ’جنابت کی حالت میں صبح کرنا‘ ایک حدیث پیش کی گئی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں : ’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جنابت کی حالت میں صبح کرتے تھے، حالاں کہ آپؐ روزے سے ہوتے تھے، پھر آپ غسل فرماتے‘۔ (بہ حوالہ: بخاری و مسلم، ص: ۳۸۴)
اس حدیث کو پڑھ کر فوراً ہی یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا نبی ﷺ حالت ِ مذکور میں فجر کی نماز ترک کردیتے تھے؟ جنابت خواہ مباشرت کے ذریعے ہوئی ہو یا احتلام کے ذریعے، اس حالت میں روزہ رکھ لینا اور پھر فجر کی نماز ترک کرکے صبح کردینا ایسا عمل ہے، جس کی توقع اللہ کے عام نیک بندوں سے بھی نہیں کی جاسکتی، چہ جاے کہ اسے اللہ کے محبوب ترین پیغمبر سے منسوب کیا جائے۔ ایک شکل یہ تو ہوسکتی ہے کہ فجر کی نماز کے بعد انسان سوجائے اور حالت خواب میں وہ ناپاک ہوجائے، لیکن حدیث کے الفاظ ’جنابت کی حالت میں صبح کرتے تھے‘ اس بات کی صراحت کرر ہے ہیں کہ حالت ِ جنابت کا وقوع رات میں ہوا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کتاب مذکور میں زیر بحث حدیث کے ضمن میں حاشیے میں فقہا کی جو آرا دی گئی ہیں ، ان میں بھی اس پہلو کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے، جب کہ حدیث مذکور کو درست مان لینے سے نبی ﷺ سے قصداً ترک ِ نماز کا عمل ثابت ہوتا ہے، جو کہ میری دانست میں نبی ﷺ پر ایک سنگین الزام ہے۔
مولانا مودودیؒ نے آیت لاَ یَمَسُّہٗ اِلّاَ الْمُطَھَّرُوْنَ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ علامہ ابن حزمؒ نے مدلل لکھا ہے کہ بے وضو قرآن شریف کو چھو سکتا ہے۔ عرض ہے کہ ان کے کیا دلائل ہیں ؟ انھیں تفصیل سے بیان کردیں ، تاکہ مجھ جیسے معذور کے لیے گنجائش نکل آئے۔ میری عمر اس وقت ۹۲ سال چال رہی ہے۔ پیشاب کی کثرت اور دیگر عوارض قرآن کی تلاوت میں مانع ہوتے ہیں ۔ الحمد للہ میں حافظ ِ قرآن ہوں ۔ چالیس سال تراویح میں قرآن سناتا رہا ہوں ۔اب حافظہ بہت کم زور ہوگیا ہے۔ دیکھ کر پڑھنے پر مجبور ہوں ۔
واضح رہے کہ میں حیلہ نہیں تلاش کر رہا ہوں ۔ اسلام میں جب گنجائش ہے تو کیوں نہ اس پر عمل کیا جائے۔
میں ایک مسلم ادارہ میں کام کرتا ہوں ، جہاں پر مسلم وغیر مسلم اساتذہ کام کرتے ہیں ۔ غیر مسلم اساتذہ کھڑے ہوکر پیشاب کرتےہیں ۔ انتظامیہ کے کچھ ممبران نے سوچا کہ غیر مسلم اساتذہ کے لیے ایسا بیسن لگادیا جائے جس میں کھڑے ہوکر پیشاب کیا جاتا ہے ۔ مسلم اساتذہ نے اس پر اعتراض کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے پہلا خدشہ یہ ہے کہ خود مسلم بچے آج نہیں تو کل کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کے عادی ہوجائیں گے ، دوسری بات یہ کہ ہمیں اپنی اسلامی تہذیب وآداب کا ہر موقع پر خیال رکھنا چاہیے ۔ اس طرح کے ماحول میں ہمارا کیا رویہ ہونا چاہیے ؟ براہِ کرم تشفی بخش جواب سے نوازیں ۔
ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ عورتوں میں حیض کی ابتدا بنی اسرائیل سے ہوئی۔ ان سے قبل عورتوں کو حیض نہیں آتا تھا۔ ان کی عورتوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کو یہ سزا دی گئی ۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیا یہ بات صحیح ہے؟ مجھے تو اس کے بجائے یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ عورتوں کو روز اول سے حیض آتا رہاہے۔
حیض( ماہ واری ) کی حالت میں کیا عورت قرآن پڑھ سکتی ہے ؟ یاوہ درسِ قرآن کی تیاری کرسکتی ہے ؟