کوروناکے ڈاکٹر اورمریض وضو کیسے کریں ؟ اور نماز کیسے پڑھیں ؟

:جومسلمان نماز سے لاپرواہیں اوراسے کچھ اہمیت نہیں  دیتے ان کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے،لیکن جو اس کی اہمیت سے واقف ہیں اور جان بوجھ کر ایک بھی نماز چھوڑنا نہیں چاہتے وہ اگر کبھی ایسی صورت حال سے گھِر جاتے ہیں کہ انہیں وقت پر نماز ادا کرنے میں دشواری ہوتی ہے تو وہ بہت پریشان ہوجاتے ہیں اور کوئی ایسی تدبیر سوچنے لگتے ہیں جس سے وہ احساسِ گناہ سے باہر نکل آئیں ۔
آج کل کورونا وائرس کے علاج میں جو مسلمان ڈاکٹر ،نرسیں  اورطبی عملہ کے لوگ لگے ہوئے ہیں  وہ بسااوقات کئی کئی گھنٹے مسلسل مصروف رہتے ہیں ۔اس دوران کسی نماز کا وقت آجاتا ہے ۔وہ جاننا چاہتے ہیں کہ نماز کیسے ادا کریں ؟ اسی طرح جو مسلمان کورونا کا شکار ہوگئے ہیں اور اسپتالوں میں ان کا علاج چل رہاہے وہ فکر مند ہیں کہ ان کی نماز یں  کیسے ادا ہوں ؟
براہ کرم ان کے طریقۂ نماز کے سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں ۔

اسقاط ِ حمل کے بعد ناپاکی کی مدت

اگر حاملہ عورت کا ابتدائی دنوں میں بچہ گرجائے (Miscarriage)تو اس صورت میں وہ کتنے دنوں تک ناپاک رہتی ہے اور اس صورت میں نماز کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جرابوں پر مسح

موزوں اور جرابوں پر مسح کے بار ے میں علما میں اختلاف پایا جاتا ہے۔میں آج کل تعلیم کے سلسلے میں اسکاٹ لینڈ کے شمالی حصے میں مقیم ہوں ۔یہاں جاڑے کے موسم میں سخت سردی پڑتی ہے اور اونی جراب کا ہر وقت پہننا ناگزیر ہے۔کیا ایسی جراب پر بھی مسح کیا جاسکتا ہے؟براہِ نوازش اپنی تحقیق احکام شریعت کی روشنی میں تحریر فرمائیں ۔

رسول اللّٰہ ﷺ کے وضو کے پانی سے برکت حاصل کرنا

صحیح البخاری، باب استعمال فضل وضوء الناس حدیث :۱۸۸ میں آتا ہے: دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ فِيهِ مَاءٌ فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيهِ وَمَجَّ فِيهِ ثُمَّ قَالَ لَهُمَا اِشْرِبَا مِنْهُ وَأَفْرِغَا عَلَى وُجُوهِكُمَا وَنُحُورِكُمَا({ FR 2178 }) پانی کے برتن میں ہاتھ دھونا،پھر اس میں کلی کرنا، اور ان سب کے بعد لوگوں سے کہنا کہ اسے پیو اور اس سے منہ دھوئو۔یہ سب کچھ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی نفاست پسندی کے عام کلیہ کے مخالف معلوم ہوتا ہے ۔پھر صحابہ کا اس سلسلے میں بے خود ہوکر اس کو استعمال کرنا اور بھی عجیب معلوم ہوتا ہے ۔اس کی وضاحت مطلوب ہے۔

رسول اللّٰہﷺ کے لعاب سے حصولِ برکت

صحیح البخاری باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ، حدیث۲۷۳۱میں صحابہ کی ارادت مندی اور عقیدت کاذکر کرتے ہوئے عُروہؓ ذکر کرتے ہیں : فَوَاللَّهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ ({ FR 2177 }) نخامہ کھنکارکو بھی کہتے ہیں اور جو غلیظ مواد ناک سے نکلتا ہے اس کو بھی۔ ان میں سے جو بھی ہو، بہرحال قابل غور ہے۔ کیا حضورعلیہ الصلاۃ والسلام کے نخامہ کی یہ کیفیت نہیں ہوتی تھی جو عام طور پر ہوتی ہے؟یافرط عقیدت کی وجہ سے صحابہ کو اسے چہرے اور جسم پر مل لینے میں اجنبیت نہیں محسوس ہوتی تھی؟ حضورﷺ کی نفاست پسندی اس میں حائل کیوں نہ ہوئی؟

کھڑے ہوکر پیشاب کرنا

اُمید ہے کہ آں جناب ازراہِ کرم درج ذیل حدیث سے متعلق میرے شبہات کو ملاحظہ فرمائیں گے۔
حضرت حذیفہؓ کی روایت ہے کہ نبی ﷺ کھاد کے ایک ڈھیر کے قریب گئے اور میرے سامنے کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔

حضرت عائشہ ؅ کا صاع پانی سے غسل کرنا

نبی ﷺ کی مقدس احادیث کے لیے میرے دل میں احترام کا جذبہ کسی کٹر سے کٹر اہل حدیث سے کم نہیں ۔اسی لیے ہر وقت دُعا مانگتا رہتا ہوں کہ خدا مجھے منکرین حدیث کے فتنے سے بچاے۔ لیکن چند احادیث کے متعلق ہمیشہ میرے دل میں شکوک وشبہات پیدا ہوتے رہتے ہیں ۔اُمید ہے کہ آں جناب ازراہِ کرم درج ذیل حدیث سے متعلق میرے شبہات کو ملاحظہ فرمائیں گے اور اس کی وضاحت کرکے میری پریشانی وبے اطمینانی رفع فرما دیں گے۔شکر گزار ہوں گا۔
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے نبی ﷺ کے غسل کے متعلق استفسار کیا گیا تو انھوں نے برتن منگوا کر اور پردہ لٹکا کر اپنے بھائی اور ایک غیر شخص کی موجودگی میں غسل فرمایا۔({ FR 1827 })(بخاری،جلد اوّل صفحہ۳۹ ) ازراہ کرم اس حدیث کے متعلق میری پریشانی دور فرماکر مشکور فرمائیں ۔

کُتوں کے منہ لگے ہوئے کپڑوں کو دھونا

یہاں مغربی معاشرے میں لوگ عام طور پر کُتّے پالتے ہیں ۔ملاقات کے وقت پہلے کتے ہی استقبال کرتے ہیں اور کپڑوں کو منہ لگاتے ہیں ۔ انتہائی کوشش کے باوجود اس مصیبت سے بچنامحال ہے۔ کیا ایسی صورت میں جرابوں اور کپڑوں کو بار بار دھلوایا جائے؟

مغربی معاشرے میں طہارت کی مشکلات

برطانیا کے قیام کے دوران میں احکامِ شریعت کی پابندی میں مجھے مندرجہ ذیل دشواری پیش آرہی ہے۔ براہِ کرم صحیح راہ نمائی فرما کر ممنون فرمائیں ۔
میری دقت طہار ت او ر نماز کے بارے میں ہے۔ مجھے سویرے نو بجے اپنے ہوٹل سے نکلنا پڑتا ہے۔اب اگر شہر میں گھومتے ہوئے رفع حاجت کی ضرورت پڑے تو ہر جگہ انگریزی طرز کے بیت الخلا بنے ہوئے ہیں ،جہاں کھڑے ہوکر پیشاب کرنا پڑتا ہے۔اس سے کپڑوں پر چھینٹیں پڑنا لازمی ہے۔اجابت کے لیے صرف کاغذ میسر ہوتے ہیں ۔ایک بجے ظہرکا وقت ہوجاتا ہے۔اس وقت پانی کسی عام جگہ دستیاب نہیں ہوسکتا اور قیام گاہ تک آنے جانے کے لیے زحمت کے علاوہ کم ازکم ایک شلنگ خرچ ہوجاتا ہے۔نماز کے لیے کوئی پاک جگہ بھی نہیں مل سکتی۔ہوٹل میں گو پانی اورلوٹا میسر ہیں مگر پتلون کی وجہ سے استنجا نہیں ہوسکتا،البتہ وضو کیا جاسکتا ہے۔مگر اس میں بھی یہ دِقت ہے کہ پانی زمین پر نہ گرے۔ہاتھ دھونے سے لے کر سر کے مسح تک تو خیر باسن(انگریزی بیسن) میں کام ہوجاتا ہے۔لیکن پائوں دھونے کے لیے باسن پر رکھنے پڑتے ہیں جو یہاں کی معاشرت کے لحاظ سے انتہائی معیوب ہے۔