حج پر قادرشخص کا دوسرے کوحج کرانا
زید ہرلحاظ سے صاحبِ استطاعت ہے ۔ اس پر حج فرض ہے اوروہ سفرِ حج پر قادر بھی ہے، لیکن وہ اپنے عوض اپنی بیوی کو، جس پر حج فرض نہیں ہے ،اپنے پیسے سے محرم کے ذریعے حج کروانا چاہتا ہے ۔ کیا یہ درست ہے ؟
زید ہرلحاظ سے صاحبِ استطاعت ہے ۔ اس پر حج فرض ہے اوروہ سفرِ حج پر قادر بھی ہے، لیکن وہ اپنے عوض اپنی بیوی کو، جس پر حج فرض نہیں ہے ،اپنے پیسے سے محرم کے ذریعے حج کروانا چاہتا ہے ۔ کیا یہ درست ہے ؟
کیا طوافِ کعبہ اورسعی بین الصفا والمروہ کے لیے وضو ضروری ہے؟ اگر ہاں تو جس شخص کا وضو اس دوران ٹوٹ جائے وہ کیا کرے؟ کیا وضو کے بعد طواف یا سعی کو وہ از سرنو دہرائے گا یا جتنا کرچکا ہے اس کے آگے مکمل کرے گا؟
ہمارے یہاں بعض حضرات کہتےہیں کہ اگر کوئی شخص عمرہ کرلے تو اس پر حج فرض ہوجاتا ہے ۔ کیا یہ بات درست ہے؟
ایک صاحب شادی شدہ ہیں ۔ان کی بیوی معزز اورصاحبِ حیثیت گھرانے کی ہے، لیکن بعض اسباب سے وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں ۔وہ ایک مطلقہ عورت سے محبت کرتے ہیں اوراس سے شادی کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ اگر ان کی بیوی کو اس کا علم ہوگیا تو وہ ان سے طلاق لے لے گی اور سیاسی اثر ورسوخ کی وجہ سے ان کو جھوٹے کیس میں پھنسا دے گی۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ خفیہ طریقے سے اس مطلقہ عورت سے نکاح کرلیں ۔ نہ اس کے ولی کو پتہ چل پائے،نہ گواہ ہوں ،نہ اعلان ہو۔ کیوں کہ گواہ اوراعلان ہونے کی صورت میں لوگوں کو معلوم ہوجائے گا اور ان کا معاملہ خفیہ نہیں رہ سکے گا، پھر وہ پہلی بیوی کی طرف سے مختلف مسائل کا شکار ہوجائیں گے۔ کیا ان صاحب کے لیے ایسا کرنے کی رخصت ہے؟
ایک شخص تعلیم کی غرض سے دوسرے ملک جاتا ہے۔اس کی تعلیم کی مدت چار سال ہے۔وہ گناہ سے بچنے کے لیے چار سال کی مدت کے لیے نکاح کرلیتا ہے۔ فریقین کے درمیان اس کا معاہدہ ہو جاتا ہے۔ چار سال کے بعد اس شخص کی تعلیم مکمل ہو جاتی ہے اور وہ اپنے بیوی بچوں کو کچھ مال و جائداد اور رہائش دے کر طلاق دے دیتا ہے اور اپنے وطن روانہ ہو جاتا ہے۔کیا یہ طریقہ درست ہے؟اس سلسلے میں شریعت کیا کہتی ہے؟
ہمارے یہاں ایک صاحب نے اذان کے آخری کلمہ لا الہ الا اللہ کے بعد مائک ہی پر دھیمی آواز میں محمد رسول اللہ کہا۔ اس پر میں نے انہیں سخت الفاظ میں ٹوکا اورکہا کہ اگر یہ اضافہ مقصود ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی یہ اضافہ کردیتے ۔ جب آپؐ نے اضافہ نہیں کیا ہے تو اب ہمیں بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جواب میں ان صاحب نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار نماز پڑھا رہے تھے۔ رکوع سے اٹھتے ہوئے جب آپؐ نے سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ فرمایا تو ایک صحابی نے رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد کے ساتھ حَمْداً کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارَکًافِیْہِ کہا۔ اس اضافے پرآپؐ نے نکیر کرنے کے بجائے ان کی تعریف کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسا اضافہ ،جو دین کی بنیادی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہو، غلط نہیں ہے۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں ۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟
پانچ وقت کی نمازوں میں اذان اورجماعت کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہیے اورکیوں ؟ بہ راہ کرم وضاحت فرمادیجیے۔
ظہر اورعصر کی نمازوں میں قرأت خاموشی سے کی جاتی ہے ، جب کہ فجر ، مغرب اورعشاکی نمازوں میں بلند آواز سے ۔ اس کی کیا حکمت ہے ؟
کچھ لوگ نماز میں دوران قیام ہاتھ باندھتے ہی نہیں ہیں ۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ ایسا کرنے والے لوگ کون ہیں اوران کے دلائل کیا ہیں ؟
نماز میں ہاتھ باندھنے سے متعلق سوال کے جواب میں آپ نے حدیثوں کا تفصیلی حوالہ دیا ہے، پھر لکھا ہے کہ جمہورعلما (احناف ، شوافع، حنابلہ) کے نزدیک نمازی کو دورانِ قیام ہاتھ باندھنا چاہئے، البتہ امام مالکؒ سے اس سلسلے میں کئی اقوال مروی ہیں ۔ ان اقوال کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک ہاتھوں کا کھلا چھوڑنا یعنی مطلق نہ باندھنا قابل ترجیح ہے ۔
آپ کے جواب سے مزید چند سوالات ابھرتے ہیں :
۱- احادیث کی بیش تر کتابیں بعد کے زمانے میں مرتب ہوئی ہیں ۔ قدیم ترین مجموعۂ احادیث غالباً خود امام مالک ؒ کا مرتب کردہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ان کی کتاب ’مؤطا ‘ میں کیا اس کے متعلق کوئی وضاحت ہے ؟
۲- امام مالک کی پوری زندگی مدینہ منورہ میں گزری ۔ انہوں نے طویل عمر پائی۔ عرصہ تک وہ مسجد نبوی میں درس دیتے رہے ۔ انہوں نےمدینہ میں تابعین اورتبع تابعین کی ایک بڑی تعداد کو لمبے عرصے تک مسجد نبوی میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ ہم سب جانتےہیں کہ نماز ایسی عبادت ہے جس کا تواتر وتسلسل رسول اللہ ﷺ کے عہد سے لے کر آج تک قائم ہے اور قیامت تک رہے گا ۔ ظاہر ہے کہ دوسرے ائمہ کے مقابلے میں امام مالکؒ کو اہلِ مدینہ کا تعامل و تواتر دیکھنے کا زیادہ موقع ملا تھا ۔ ایسی صورت میں سوال اٹھتا ہے کہ اہلِ مدینہ کا تواتر وتعامل اس مسئلہ میں کیا رہا ہے ؟
اگران سوالات کی مناسب وضاحت ہوجائے تواس مسئلہ کا شافی جواب مل سکتا ہے۔