حاضر وناظرہونے کا معاملہ

حاضر وناظر کی صفت بھی خدا وند تعالیٰ سے مختص قرار دی جاتی ہے۔لیکن اﷲ تعالیٰ نے ملک الموت کو یہ طاقت بخشی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں انسانوں ، حیوانوں ، پرندوں ،چرندوں اور جنوں کی روحوں کو قبض کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ حاضر وناظر ہے، اور حاضر وناظر ہونا خدا کی مخصوص صفت ہے۔یہاں اگر یہ کہا جائے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک فرض کی انجام دہی کے لیے اپنی خاص صفت فرشتے میں ودیعت کررکھی ہے تو جو لوگ آں حضرتﷺ میں صفت حاضر وناظر کا ہونا اور خدا کی طرف سے عطا کیا جانا مانتے ہیں ، آخر انھیں مشرک کیوں کہا جاتا ہے؟

تأویل کی غلطی اور شرک میں فرق

آپ کے رسالہ’’ترجمان القرآن‘‘ مارچ ۱۹۶۲ء کا باب’’ رسائل ومسائل‘‘ مطالعہ کیا۔ مضمون کی آخری سطور سے مجھے اختلاف ہے۔لہٰذا رفع اختلاف اور جستجوے حق کے جذبے کے تحت سطور ذیل رقم کررہا ہوں :
کتاب وسنت کی واضح تصریحات سے مترشح ہوتا ہے کہ عَالِمُ مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ اور ’’حاضر وناظر ہونا‘‘اﷲ جل شانہ کی مختص صفات ہیں ۔بنا بریں جو مسلمان ان صفات مخصوصہ کاوجود حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ یا کسی اور نبی یا ولی میں تسلیم کر ے تو کتاب وسنت کے قطعی فیصلے کی رو سے وہ شرک کا مرتکب متصور ہوگا اور اس پر لفظ ’’مشرک‘‘ کا عدم اطلاق کتاب وسنت کے احکام سے روگردانی کے مترادف ہوگا۔ ایسے شخص کو مشرکین عرب سے تشبیہ دی جائے، تو یہ تشدد نہیں بلکہ عین مقتضاے انصاف ہے۔
آخر یہ کیا بات ہوئی کہ ان صفات کا غیر اﷲ میں تسلیم کرنا تو آپ کے نزدیک شرک ہو مگر اس شرک کا مرتکب مسلمان،اور اس پر ’’مشرک‘‘ کے لفظ کا اطلاق آپ کے نزدیک صریح تشدد! یہ تناقض کیوں ؟
آپ کسی مسلمان کو مشرک قرار اس لیے نہیں دیتے کہ اوّلاً وہ ’’تأویل کی غلطی‘‘ کا شکارہوتا ہے۔ ثانیاً وہ شرک کو شرک جانتے ہوئے اس کا ارتکاب نہیں کرتا۔آپ کی یہ دونوں توجیہات میرے خیال میں مبنی بر صداقت نہیں ہیں ۔

شرک اوراتّباعِ علما وصلحا

ایک عالمِ دین اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ ’’شرک کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ علما اور صلحا کو امام اور ہادی مان کر ان کے اقوال کو اﷲ کے قول کی طرح بلا سند تسلیم کیا جائے۔‘‘ پھر فرماتے ہیں کہ’’ ائمۂ سلف اور بزرگانِ دین کے علوم اور حالات سے علمی اور تاریخی فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں لیکن ان کے کسی قول کو بلا قرآنی سند کے دین ماننا شرک ہے۔‘‘ لیکن ایک اور مقام پر لکھتے ہیں : ’’کتاب اﷲ کو چھوڑ کر بزرگوں کی پیروی کرنا گمراہی ہے۔‘‘آگے چل کر پھر فرماتے ہیں کہ’’رسول اور امیر کی اطاعت کے سوا اور کسی کی اطاعت کاحکم قرآن میں نہیں ہے بلکہ ممانعت ہے۔‘‘آخر میں ایک مقام پر ان کا ارشاد ہے: ’’بلکہ عام طور پر انسانوں کی اطاعت کو قرآن خطرناک قرار دیتا ہے۔‘‘مصنف کی یہ باتیں کہاں تک درست ہیں ؟

جستجوے حق کا صحیح طریقہ

اگر ایک آدمی حق کی تلاش میں ہے اور وہ دل سے اس کی کوشش کرتا ہے لیکن اسے کافی جدوجہد کے بعد بھی وہ نہیں ملتا تو کیاوہ بے چارہ حوصلہ ہار نہیں بیٹھے گا؟ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی انتہائی تاریکی میں اس غرض سے سفر کرتا ہے کہ کہیں روشنی کا چراغ اسے ملے۔ لیکن سفر کرتے کرتے روشنی کا نشان تک اسے نہیں ملتا۔ آخر کو بے چارا تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور یہ سمجھ لیتا ہے کہ روشنی سرے سے ہے ہی نہیں ، اگر کچھ ہے تو بس گھپ اندھیرا۔
مولانا محترم! آپ کہیں گے کہ میں نے یہ ایک محض فرضی مثال پیش کی ہے۔ میں انسانی زندگی میں عملی مثال پیش کرتا ہوں ۔ دو آدمی ہیں جو شعوری طور پر اور رسمی طورپر مسلمان ہیں ۔ شروع شروع میں دونوں دو حصاروں کے اندر بند ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک حصار زندگی میں مصیبتوں ، تکلیفوں اور ناکامیوں کا حصار ہے۔ ایک آدمی پہلے حصار سے باہر نکل آتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ اب ایک ہی حصار اس کے لیے باقی ہے جس سے نکل کر وہ آزاد ہوجائے گا۔ اس طرح اس کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اورجب وہ دوسرے حصار سے بھی باہر نکل آتا ہے تو آزاد ہو جاتا ہے۔ یہ تجربہ اسے مطمئن کر دیتا ہے اور وہ ایسی ذات کا قائل ہو جاتا ہے جو مصیبت زدہ کی پکار کو سنتی ہے اور مدد کرتی ہے۔ مگر دوسرا شخص ایک حصار سے نکلتا ہے تو دوسرا حصار اور دوسرے سے نکلتا ہے تو تیسرا حصار اسے گھیر لیتا ہے، یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے پیہم حصار پر حصار اسے گھیرتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ مسلسل چکر اسے قطعی مایوس کر دیتا ہے اور وہ کسی ایسی ذات سے جو مصیبت میں کام آئے مکمل طور پر نا امید ہو جاتا ہے، کیونکہ بے چارہ بار بار چلاتا ہے کہ مَتٰی نَصْرُاللّٰہِ اور کبھی بے چارے کو اَلَا اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ (البقرہ :۲۱۴) کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہ شخص اس لیے ناامید ہوگیا ہے کہ بے چارے کی بیش تر خواہشات میں سے ایک بھی پوری نہیں ہوئی اور بیس تکلیفوں میں سے ایک بھی رفع نہیں ہوئی۔ اگر کوئی ایک خواہش بھی پوری ہو جاتی، یا ایک تکلیف بھی رفع ہو جاتی تو وہ اس بات سے کلی طورپر مایوس نہ ہوتا کہ اوپر کوئی بالاتر ہستی دُعائیں سننے اور حاجتیں پوری کرنے والی موجود ہے۔

تدبیرِ اُمور ِکائنات

آیت يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْہِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَـنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ(السجدہ:۵ )
’’وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی رُوداد اوپر اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمھارے شمار سے ایک ہزار سال ہے۔‘‘
کا مفہوم میری سمجھ میں نہیں آتا۔اس وقت میرے سامنے تفسیر کشاف ہے۔صاحب کشاف کی توجیہات سے مجھے اتفاق نہیں ہے،کیوں کہ قرآنی الفاظ ان توجیہات کی تصدیق نہیں کرتے۔ان پر تبصرہ لکھ کر آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔آپ کے نزدیک اس آیت کا صحیح مطلب کیا ہے؟ لفظ یَعْرُجُ اِلَیْہِ کا لغوی مدلول پیش نظر رہنا چاہیے۔نیز یہ لفظ ’’الامر‘‘ قرآن کی اصطلاح میں کن کن معنوں میں مستعمل ہوتا ہے؟

کیا کائنات خود بخود چل رہی ہے؟

میرے ایک عزیز جو ایک اونچے سرکاری منصب پر فائزہیں ،کسی زمانے میں پکے دین دار اور پابند صوم وصلاۃ ہوا کرتے تھے لیکن اب کچھ کتابیں پڑھ کر لامذہب ہوگئے ہیں ۔ان کے نظریات یکسر بدل چکے ہیں ۔ ان نظریات کی تبلیغ سے بھی وہ باز نہیں آتے۔ میں ان کے مقابل میں اسلامی احکام و تعلیمات کی مدافعت کی پوری کوشش کررہا ہوں لیکن اپنی کم علمی کی وجہ سے ان کا مدلل جواب دینا میرے بس میں نہیں ہے۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ میری مدد فرمائیں ۔
خدا کو وہ قادر مطلق اور اس جہاں کا پیدا کرنے والا تو مانتے ہیں مگر ان کے نزدیک جہان کو خدا نے بنا کر چھوڑ دیا ہے اور اب یہاں جو کچھ بھی ہورہا ہے،آپ سے آپ (automatic) ہورہا ہے۔کچھ وقت نکال کر مختصر جواب دیں ۔ممنون رہوں گا۔

خالق کی پالیسی کی مصلحت

انسانی زندگی میں بہت سے واقعات وحوادث ایسے رونما ہوتے رہتے ہیں کہ جن میں تخریب وفساد کا پہلو تعمیر واصلاح کے پہلو پر غالب نظر آتا ہے۔بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی کوئی حکمت ومصلحت سمجھ میں نہیں آتی۔اگر زندگی کا یہ تصور ہو کہ یہ خود بخود کہیں سے وجود میں آگئی ہے اور اس کے پیچھے کوئی حکیم وخبیر اور رحیم طاقت کارفرما نہیں ہے،تب تو زندگی کی ہر پریشانی اور اُلجھن اپنی جگہ صحیح ہے، کیوں کہ اس کو پیدا کرنے میں کسی عقلی وجود کو دخل نہیں ہے، لیکن مذہب اور خدا کے بنیادی تصورات اور ان واقعات میں کوئی مطابقت نہیں معلوم ہوتی۔
اگر یہ کہا جائے کہ ان مسائل کے حل کرنے کے ذرائع ہمارے پاس نہیں ہیں ، تو یہ چیز بھی عجیب ہے کہ ذہن انسانی کو ان سوالات کی پیدائش کے قابل تو بنا دیا جائے،لیکن ان کا جواب دینے یا سمجھنے کے قابل نہ بنایا جائے، اَور سب ضروریات کا خیال رکھا جائے مگر ان ذہنی ضروریات کو نظر انداز کردیا جائے۔اس طرح تو خالق کی پالیسی میں بظاہر جھول معلوم ہوتا ہے۔(نعوذ باﷲ)

رسول کا علمِ غیب

ایک عالمِ دین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’رسول کو عالمِ غیب سے وہی باتیں بتائی جاتی ہیں جن کو اﷲ ان کے توسط سے اپنے بندوں کے پاس بھیجنا چاہتا ہے۔‘‘ استدلال میں یہ آیت پیش کی ہے:
عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْہِرُ عَلٰي غَيْبِہٖٓ اَحَدًاo اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًاo لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا (الجن ۲۶ -۲۸)
’’وہ عالم الغیب ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، سواے اس رسول کے جسے اس نے (غیب کا علم دینے کے لیے) پسند کر لیا ہو،تو اس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ انھوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے اور وہ ان کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے۔‘‘
یعنی ’’وہ غیب کاعالم ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سواے اس رسول کے جس کو اُ س نے چن لیاہو، پھر وہ اس کے آگے اور پیچھے نگراں لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ رسولوں نے اپنے ربّ کے پیغامات پہنچا دیے۔‘‘
مصنف کی اس بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسولوں کوغیب کا صرف اتنا ہی علم دیا جاتا ہے جتنا بندوں کو پہنچانامطلوب ہوتا تھا۔ اس سے زیادہ انھیں کوئی چیزنہ بتائی جاتی تھی۔کیا یہ بات درست ہے؟ اور کیا وہ آیت جس سے مصنف نے استدلال کیا ہے،اس معاملے میں فیصلہ کن ہے؟

بائبل کے مشتملات

تفہیم القرآن جلد دوم، سورۂ توبہ، حاشیہ ۲۹، صفحہ ۱۴۹ ملاحظہ ہو۔
’’عزیر سے مراد عزرا (Ezra) ہیں ، جنھیں یہودی اپنے دین کا مجدد مانتے ہیں ۔ ان کا زمانہ ۴۵۰ قبل مسیح کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔ انھیں عزیر یا عزرا نے بائبل کے پرانے عہد نامے کو مرتب کیا اور شریعت کی تجدید کی۔‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عزیر کا زمانہ ۴۵۰ قبل مسیح بتایا جاتا ہے تو آخر انھوں نے بائبل کے کون سے پرانے عہد نامے کو مرتب کیا، جب کہ بائبل (انجیل) تو حضرت عیسیٰؑ پر نازل ہوئی ہے؟