قرآن مجید کا ادب واحترام

اجتماعی مطالعۂ قرآن کے موقع پر کچھ لوگ مسجد کے فرش پرپالتی مارکر بیٹھ گئے اور انھوں نے قرآن مجید کو اپنی پنڈلیوں اورٹخنوں پراس طرح رکھا کہ مصحف اورپیروں کے درمیان جزدان ، کوئی کپڑا یا ان کی ہتھیلیاں بھی نہ تھیں ۔ میں  نے توجہ دلائی کہ یہ خلافِ ادب ہے تو کہا گیا کہ اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں  ہے۔ مختلف طریقے لوگوں نے اپنے طورپر نکال لیے ہیں ۔
کیا اس طرح پیروں پرقرآن مجید رکھ کر پڑھنا اس کی بے ادبی نہیں ہے؟ میں  بڑی الجھن میں ہوں ۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں ۔

سورۃ النجم کا زمانۂ نزول

سورۂ نجم کے زمانۂ نزول کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے کہ یہ سورہ سنہ پانچ نبوی میں نازل ہوئی ہے ۔ اس کی دلیل کے طورپر مولا نا نے مختلف روایتیں نقل کی ہیں ۔ سورہ کے دیباچہ میں تاریخی پس منظر بھی زمانۂ نزول کی روایتوں کوتقویت بخشتا ہے ۔
اس سورہ میں دومرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات کا ذکرہے۔ پہلی ملاقات پہلے نزول وحی کے وقت (آیات ۷تا۱۰) اور دوسری ملاقات سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہوئی تھی (آیات ۱۳تا ۱۸)۔ ظاہر ہے ، سدرہ کے پاس حضور کی موجودگی سفر معراج کے واقعہ کا حصہ ہے ، جس کا زمانہ معتبر روایات کی روٗ سے ہجرتِ مدینہ سے ایک سال قبل سنہ ۱۲ نبوی کا ہے ۔ پھر سورۂ نجم میں سفر معراج میں پیش آنے والے ایک واقعہ کاذکر کیوں کر ہوسکتا ہے ؟ جب کہ وہ واقعہ ابھی پیش ہی نہیں آیا۔
کیا سورۂ نجم کے زمانۂ نزول کی کوئی اورروایت یا تحقیق ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہوکہ وہ ہجرتِ مدینہ سے قریب نازل ہوئی تھی ؟ یاواقعہ معراج کوابتدائی دورِ نبوت میں مانا جائے؟
بہ راہ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں ۔

قرآن مجید میں  آیات ِ سجدہ

قرآن مجید میں  اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم پندرہ(۱۵) مقامات پرسجدہ کریں ۔ پھر ہم صرف چودہ(۱۴) مقامات پرسجدہ کیوں کرتے ہیں ؟ ایک مقام پرسجدہ کیوں چھوڑدیتے ہیں ؟ کیا ایک امام کی پیروی اللہ اوراس کے رسول کی پیروی سے بڑھ کر ہے؟ براہِ کرم سنن ابی داؤد کی یہ حدیث (نمبر ۱۴۰۲) ملاحظہ کیجیے۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:کیا سورئہ حج میں دوسجدے ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا:’’ ہاں  اورجس نے ان آیتوں پرسجدہ نہیں کیا، اس نے گویا ان کی تلاوت ہی نہیں کی۔‘‘

لفظ ’قلب ‘ اوراس کے مترادفات میں فرق

قرآن کریم میں تین الفاظ آئے ہیں : قلب، فؤاد، صدر۔ عام طور پر مترجمین تینوں کا ترجمہ ’دل ‘ سے کرتے ہیں ۔ کیا ان کے درمیان کچھ فرق ہے یا یہ ہم معنی ہیں ؟

قصصِ یوسف ؑ و سلیمانؑ کے بعض اشکالات

آج کل مولانا مودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن میرے زیر مطالعہ ہے۔ مطالعے کے دوران سورۂ یوسف اور سورۂ نمل سے متعلق کچھ سوالات ذہن میں ابھرے ہیں ۔ بہ راہِ کرم ان کا تحقیقی، مدلل اور تشفی بخش جواب مرحمت فرمایے۔ نوازش ہوگی۔
(۱) سورۂ یوسف کی ایک آیت کا مفہوم یہ ہے: ’’جب یوسف اپنے بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی کے سامان میں خود پیالہ رکھوادیا اور پھر چوری کے الزام میں اسے اپنے پاس روک لیا۔‘‘ کیا یہ جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں ہوا؟ کیا ایک شخص نبی ہوتے ہوئے جھوٹ بول سکتا ہے؟ اس بات کو سر سری طور پر نہ لیں ۔ کیوں کہ ہم ایک نبی پر ایمان ہی اس بنیاد پر لاتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں کسی معاملے میں کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔
(۲) سورۂ نمل میں ہے کہ ’’حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکۂ سبا کا شاہی تخت، اس وقت جب وہ اپنے محل میں موجود نہیں تھی، اٹھوا کر اپنے یہاں منگوالیا۔‘‘ اس فعل کو آپ کیوں کر جائز ٹھہرائیں گے؟ بھلا بتایے، اگر آپ اپنے گھر میں موجود نہ ہوں اور کوئی شخص آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے گھر سے آپ کا سامان اٹھا لے جائے تو آپ اس عمل کو کیا کہیں گے؟

قرآنی بیانات میں اختلاف و تضاد؟

قرآن کے مطالعہ کے دوران چند مقامات پر ذہنی الجھن کا شکار ہوگیا ہوں ۔ بہ راہ کرم تشریح و توضیح فرما کر ممنون فرمایئے:
(۱) سورۂ اعراف آیت ۲۹ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کَمَا بَدَاَکُمْ تَعُوْدُوْنَ۔ مولانا مودودی نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے: ’’جس طرح اس نے تمھیں اب پیدا کیا ہے اسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤگے۔‘‘ ’جس طرح‘ کے لفظ سے فوراً یہ مفہوم ذہن میں آتا ہے کہ جس طرح اس نے تمھیں اب، یعنی ماؤں کے پیٹ سے پیدا کیا ہے، اسی طرح، یعنی ماؤں کے پیٹ سے، پھر پیدا کیے جاؤگے۔ جب کہ قرآن کے دیگر مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انسان مرچکے ہیں انھیں از سر نو پیدا نہیں کیا جائے گا، بل کہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا۔ مثلاً سورۂ یٰسین آیت ۵۱ یہ ہے: وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا ھُمْ مِنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰی رَبِّھِمْ یَنْسِلُوْنَ (پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے) مذکورہ بالا دونوں بیانات ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد ہیں ، جب کہ کلام الٰہی میں تضاد و اختلاف ممکن نہیں ۔
(۲) سورۂ آل عمران میں ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَ اَیْمَانِھِمْ ثَمَنًا قَلِیْلاً اُولٰٓئِکَ لاَ خَلاَقَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلاَ یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلاَ یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلاَ یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo (آل عمران: ۷۷)
’’رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں ، تو ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ۔ اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انھیں پاک کرے گا، بل کہ ان کے لیے تو سخت درد ناک سزا ہے۔‘‘
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نہ مجرموں کی طرف دیکھے گا نہ ان سے بات کرے گا تو ان سے حساب کیسے لے گا؟ حساب لینے کے لیے اللہ تعالیٰ کو مجرموں سے مخاطب ہونا ہی پڑے گا۔

سورۂ توبہ کے شروع میں بسم اللہ کیوں نہ پڑھی جائے؟

قرآن مجید کی تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی جاتی ہے، ماسوا سورۂ توبہ کے۔ علامہ مودودیؒ لکھتے ہیں کہ ’’ حضوؐر کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں جب قرآن مجید کو مرتب کرنے کا ارادہ کیا گیا تو اس تھیلے کو نکالا گیا اور تمام سورتوں کی ترتیب، جیسے کہ رسول اللہؐ نے بتائی تھی، وہ قائم رکھ کر ان کی نقل تیار کی گئی۔ تو چوں کہ حضوؐر کی لکھوائی ہوئی سورۂ توبہ کے شروع میں بسم اللہ درج نہیں تھی، اس وجہ سے صحابہ کرامؓ نے بھی اسے درج نہیں کیا۔ باقی کوئی سورت قرآن مجید کی ایسی نہیں ہے، جس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے نہ ہوا ہو۔‘‘
دراصل سورۂ توبہ کی ابتدا میں بسم اللہ کیوں نہ پڑھی جائے؟ اس کا سبب تشنہ رہ جاتا ہے۔ از راہِ کرم اس جانب رہ نمائی فرمائیں ، یا کسی تفسیر کا حوالہ دیں ، تاکہ تشنگی دور ہوسکے۔

بعض مقاماتِ قرآنی کی تحقیق

قصۂ موسیٰ و فرعون سے تعلق رکھنے والی آیات کی، جو تشریح مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے بیان فرمائی ہے، اس سے میرے دل میں کئی سوالات پیدا ہوگئے ہیں ۔ گزارش ہے کہ تحقیق کرکے ان کے جوابات مرحمت فرمائیں ، تاکہ میرے اشکالات کا ازالہ ہوسکے۔ مناسب سمجھیں تو میرے سوالات اور اپنے جوابات کو شائع بھی فرمادیں ، تاکہ اس مباحثے سے عام لوگوں کو بھی فائدہ ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کی علمی جدو جہد کو قبول فرمائے اور دنیا و آخرت کی نعمتوں سے نوازے۔
(۱) مولانا مودودیؒ صحرائے سینا پر فرعون کے تسلط کے تعلق سے سورۂ اعراف میں بیان کرتے ہیں کہ ’’اس زمانے میں جزیرہ نمائے سینا کا مغربی اور شمالی حصہ مصر کی سلطنت میں شامل تھا۔ جنوب کے علاقے میں موجودہ شہر طور اور ابو زنیمہ کے درمیان تانبے اور فیروزے کی کانیں تھیں ، جن سے اہلِ مصر بہت فائدہ اٹھاتے تھے اور ان کانوں کی حفاظت کے لیے مصریوں نے چند مقامات پر چھاؤنیاں قائم کر رکھی تھیں ۔ انھی چھاؤنیوں میں سے ایک چھاؤنی مفقہ کے مقام پر تھی جہاں مصریوں کا ایک بہت بڑا بت خانہ تھا، جس کے آثار اب بھی جزیرہ نما کے جنوبی مغربی علاقے میں پائے جاتے ہیں ۔‘‘ (تفہیم القرآن، ج۲، ص۷۴، ح۹۸) جب کہ سورۂ قصص کی تفسیر میں مولانا تحریر فرماتے ہیں : ’’مصر کی حکومت پورے جزیرہ نمائے سینا پر نہ تھی، بلکہ صرف اس کے مغرب اور جنوبی علاقے تک محدود تھی۔‘‘ (تفہیم القرآن، ج۳، ص۶۲۶، ح۳۲)
سوال یہ ہے کہ فرعون کا تسلط صحرا کے شمال اور جنوب دونوں پر تھا، یا شمالی حصے کے علاوہ جنوب کے صرف مغربی حصہ پر تھا؟ اگر پورے جنوب پر فرعون کا قبضہ نہیں تھا تو جنوبی سینا کے شہر طور اور ابو زنیمہ کے درمیان کی کانوں سے فائدہ اٹھانے کا اختیار مصریوں کو کیسے حاصل ہوا؟ مولانا نے کسی بت خانہ کے آثار کی نشان دہی، جس جنوبی مغربی علاقے میں کی ہے، اس سے مراد کون سا علاقہ ہے؟
(۲) مولانا مودودیؒ نے سورۂ یوسف کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ’’حضرت یوسفؑ نے حضرت یعقوبؑ کو اپنے پورے خاندان کے ساتھ فلسطین سے مصر بلا لیا اور اس علاقے میں آباد کیا، جو دمیاط اور قاہرہ کے درمیان واقع ہے۔ بائبل میں اس علاقے کو جشن یا گوشن بتایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے تک یہ لوگ اسی علاقے میں آباد رہے۔‘‘ (تفہیم القرآن، ج۲، ص۳۸۲-۳۸۳) تفہیم القرآن ج۱، ص ۴۶۰ کے مقابل مولانا نے، جو نقشہ دیا ہے اس کے نیچے یہ وضاحت ہے کہ ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر جزیرہ نمائے سینا میں مارہ، ایلیم اور رفیدیم کے راستے کوہ سینا کی طرف آئے اور ایک سال سے کچھ زائد مدت تک اس مقام پر ٹھہرے رہے۔‘‘ نقشے میں بھی مولانا نے ان مقامات کی نشان دہی کی ہے۔ بائبل میں بھی یہی باتیں بتائی گئی ہیں ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کس دریا کو عبور کیا تھا (اور اس میں فرعون غرق ہوا تھا) اس تعلق سے مولانا سورۂ اعراف میں فرماتے ہیں : ’’جس مقام سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریا کو عبور کیا وہ غالباً موجودہ سوئز اور اسماعیلیہ کے درمیان کوئی مقام تھا۔ یہاں سے گزر کر یہ لوگ جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی علاقے کی طرف ساحل کے کنارے کنارے روانہ ہوئے۔‘‘
(تفہیم القرآن، ج۲، ص۷۴،ح۹۸)
جس دریا میں فرعون غرق ہوا تھا، بائبل میں اس کا نام بحر قلزم بتایا گیا ہے۔ موجودہ دور میں اس دریا کو، جو سویز کے علاقے میں بہتا ہے، بحر قلزم نہیں ، بلکہ خلیج سویز کہا جاتا ہے۔ بحر قلزم سویز اور اسماعیلیہ سے کافی دور ہے۔ تفہیم القرآن اور بائبل میں ، جن مقامات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً مارہ، ایلیم اور رفیدیم وغیرہ وہ بحر قلزم سے بہت دور واقع ہیں ۔ بحر قلزم کی جانب سے کوہ سینا پہنچنے کے لیے ان مقامات کی طرف آنے کی ضرورت بھی نہیں ۔ جس دریا میں فرعون غرق ہوا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے ساتھ اسے پار کر گئے تھے، اگر قدیم زمانے میں اس کو بحرِ قلزم ہی کہا جاتا تھا تو آئندہ نسل کی رہ نمائی کے لیے کم از کم قوسین میں خلیج سویز لکھنا چاہیے۔ یہ ہماری رائے ہے۔
(۳) حضرت موسیٰ علیہ السلام نبوت سے قبل ایک غیرارادی قتل کی سزا سے بچنے کے لیے مدین چلے گئے تھے۔ اس کے ضمن میں مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں : ’’اس زمانے میں مدین فرعون کی سلطنت سے باہر تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین کا رخ اس لیے کیا تھا کہ وہ قریب ترین اور آزاد و آباد علاقہ تھا۔ (تفہیم القرآن، ج۳، ص ۶۲۶) آگے فرماتے ہیں : ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام بے سرو سامانی کے عالم میں یکایک مصر سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ مدین تک کم از کم ۸؍دن میں پہنچے ہوں گے۔‘‘ (تفہیم القرآن، ج۳، ص ۶۲۹)
چوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر مدین میں دریا کا ذکر نہیں ہے، اس وجہ سے ہمارا خیال ہے کہ انھوں نے اس برّی راستے ہی سے اپنے سفر کا آغاز کیا ہوگا، جو فلسطین کو مصر (اسماعیلیہ) کے آس پاس سے ملاتا ہے اور جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بعد حضرت یعقوبؑ اور ان کی اولاد نے مصر میں داخل ہونے کے لیے اختیار کیا تھا۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے نکل کر سینا کے مشرقی حصے تک پہنچے ہوں گے اور پھر وہاں سے سیدھے سینا کے جنوب کی راہ اختیار کرکے خلیج عقبہ کے اطراف آباد اصحاب مدین میں جاکر شامل ہوگئے۔
ارض ِ مدین اور کوہِ سینا دونوں متصل علاقے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے، جو راستہ اختیار کیا، جس کے درمیانی مقامات مارہ، ایلیم اور رفیدیم تھے، وہی کوہِ سینا تک پہنچنے کا قریب ترین راستہ ہے۔ شمالی سینا کا برّی راستہ طے کرکے جنوبی سینا کی طرف سے ارض مدین پہنچنا کافی طویل معلوم ہوتا ہے۔ اس طویل مسافت کو حضرت موسیٰ علیہ السلام آٹھ دنوں میں کیسے طے کرسکتے ہیں ؟ جب کہ بنی اسرائیل کو بیابانِ سینا (کوہِ طور) تک پہنچنے میں ، جو اس سے کم فاصلہ ہے، بائبل کے بیان کے مطابق تین ماہ لگے۔ (کتاب خروج، باب ۱۹:۱-۲)
ممکن ہے بنی اسرائیل نے عورتوں اور بچوں کی وجہ سے درمیان میں قیام زیادہ کیا ہو اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قیام کیے بغیر اپنا سفر جاری رکھا ہو۔ پھر بھی اس قدر طویل مسافت کو محض آٹھ دنوں میں طے کرنے کی بات تحقیق و وضاحت طلب ہے۔