کیا عقیقے میں بال مونڈنا ضروری ہے؟

میں نے اپنے پوتے کے عقیقے کی تاریخ طے کردی اور رشتہ داروں کو اس کی اطلاع دے دی۔ تاریخ ِ عقیقہ سے کچھ دنوں قبل بچے کے سر میں دانے نکل آئے۔ ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اس نے سر کے بال منڈوانے سے منع کیا۔ کیا سر کے بال منڈوائے بغیر بچے کا عقیقہ ہوجائے گا؟ کیا میرے لیے کفایت کرے گا کہ میں اس کے بالوں کا اندازہ کرکے اس کے ہم وزن چاندی کی مالیت کی رقم خیرات کردوں ؟

بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا حق

ایک حدیث نظر سے گزری ہے جس کا مضمون کچھ یوں ہے: ’’ایک عورت اپنے دودھ پیتے بچے کو لے کر اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے۔ میں نے حمل اور وضع حمل کی تکلیفیں برداشت کی ہیں ، ابھی یہ میرا دودھ پیتا ہے اور میری آغوش تربیت کا محتاج ہے، لیکن اس کا باپ، جس نے مجھے طلاق دے دی ہے، چاہتا ہے کہ اسے مجھ سے چھین لے۔ یہ سن کر آپؐ نے ارشاد فرمایا:
’’تم اس کی زیادہ حق دار ہو جب تک تمھارا کہیں اور نکاح نہ ہوجاے۔‘‘
اس حدیث کے ضمن میں درج ذیل سوالات ابھرتے ہیں :
۱- اگر ماں کسی اور سے نکاح کرلے تو ایسی صورت میں کیا ماں کا حق حضانت پوری طرح ساقط ہوجاتا ہے اور بچے کو مطلقہ سے لے لینے کا باپ پوری طرح حق دار ہوگا؟ حدیث کے الفاظ سے تو یہی بات مترشح ہوتی ہے۔
۲- بچہ ماں کے پاس ہو یا ماں جس کے پاس بھی اسے پرورش کے لیے رکھے، وہ مقام کہیں اور ہو اور بچے کا باپ جہاں اپنے اہل خاندان مثلاً بچے کی دادی، دادا، پھوپھی اور چچا وغیرہ کے ساتھ مقیم ہو اور وہیں اس کا پھیلا ہوا کاروبار بھی ہو وہ مقام بچے کی جاے قیام سے ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے پر ہو، تب بھی بچے کی ماں اگر فقہ کے اس مسئلے کا حوالہ دے کہ ماں کے بعد بچے کی پرورش کا حق نانی کو منتقل ہوجاتا ہے اور بچے کو اپنی ماں کے پاس رکھنے پر مصر ہو تو یہ کہاں تک صحیح اور درست ہوگا؟ جب کہ بچے کی پرورش اس کی صحت اور تعلیم و تربیت پر نگاہ رکھنا اور وقتاً فوقتاً بچے سے ملنا اور ملتے رہنا اور بچے کو اپنے سے مانوس رکھنا، طویل فاصلے کی بنا پر باپ کے لیے ممکنات میں سے نہ ہو۔ ایسی صورت میں ماں کا یہ طرز عمل اور اس پر اصرار کیا شرعاً صحیح اور درست ہوگا؟
۳- پھر یہ کہ طلاق کے بعد بچے کی ماں کے گھر والوں یعنی نانا، نانی وغیرہ سے اس کے باپ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوچکے ہوں اور وہ ان کے گھر میں قدم رکھنا بھی پسند نہ کرتا ہو تو ایسی صورت میں بچے کو نانی کے پاس رکھنا بچے سے باپ کے تعلق کو کیا عملاً ختم کردینے کے مترادف نہیں ہوگا۔ شرعاً یہ کہاں تک درست ہے؟
۴- پھر ایک بات اور یہ کہ اگر نانی اپنے گھر کی اکیلی خاتون ہوں ، لڑکیوں کی شادی ہوچکی ہو، بڑے لڑکے شادیوں کے بعد ماں باپ سے علیٰحدہ رہتے ہوں ، ایسی صورت میں نانی پر بچے کی پرورش کی ذمہ داری ڈالنا کہاں تک صحیح اور درست ہوگا، جب کہ بچے کا باپ اس کے لیے بالکل تیار نہ ہو اور اس کو وہ اپنی اور اپنے بچے کی بہت بڑی حق تلفی قرار دیتا ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا شریعت اس طرح کے جبر کی اجازت دے گی؟
۵- دوسری طرف بچے کے باپ کے گھر والے مثلاً بچہ کی دادی، دادا، پھوپھی، چچا وغیرہ بچے کو اپنانے اور دل و جان سے اس کی پرورش اور نگہداشت کرنے کے لیے تیار ہوں تو شرعاً ترجیح کس کو دی جائے گی؟ جب کہ بچے کا باپ بھی اپنے والدین ہی کے ساتھ رہتا ہو اور کاروبار بھی مشترک ہو اور بچے کا باپ بھی دل و جان سے یہی چاہتا ہو کہ اس کا لخت جگر ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رہے اور پیار و محبت کے ماحول میں اس کی راست نگرانی میں بچے کی پرورش، تعلیم و تربیت اور تعمیر اخلاق کا نظم ہو اور عمدہ سے عمدہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ سہولتیں اور آسائشیں بھی بچے کو ملیں ۔
بہ راہ کرم حدیث بالا کے ضمن میں ابھرنے والے سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں ۔

نقل ِ مکانی کی صورت میں عورت کا حق حضانت

’بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا حق‘ کے زیر عنوان بعض سوالات کے جو جوابات دیے گئے ہیں ، ان کی ایک شق سے متعلق کچھ وضاحت مطلوب ہے۔
لکھا گیا ہے کہ ’’عام حالات میں بچے کو وہیں رکھنا ضروری ہے، جہاں اس کے باپ کا قیام ہو، اس لیے ماں باپ میں سے کوئی بھی اگر دوسری جگہ منتقل ہو رہا ہو تو ماں کا حق ِ حضانت ساقط ہوجائے گا۔‘‘ آگے اس کی مزید وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے:
’’بچے کا حقیقی ولی باپ ہے، اگرچہ ماں یا اس سلسلے کی کوئی دوسری عورت بچے کا حق حضانت رکھتی ہو، لیکن بچے کی نگرانی اور تعلیم و تربیت کا حق باپ کا ہے۔ اگر وہ بچے کو کسی ایسی جگہ (لے جانا چاہے) جہاں باپ اس کی نگرانی اور نگہ داشت نہیں کرسکتا تو وہ حق حضانت کھو دیتی ہے۔‘‘
موجودہ دور میں حالات پہلے کے مقابلے میں بہت بدل گئے ہیں ۔ شادیاں دور دراز کے علاقوں سے ہونے لگی ہیں ، پھر لڑکے کی ملازمت یا کاروبار اپنے وطن سے دور کسی جگہ ہو تو شادی شدہ جوڑا وہاں رہنے لگتا ہے۔ اب اگر نا اتفاقی کی بنا پر زوجین کے درمیان علیٰحدگی ہوجائے اور ان کے درمیان کوئی بچہ ہو تو ظاہر ہے کہ علاحدگی کے بعد محض بچے کی پرورش کے لیے اس کی ماں اس شہر میں نہیں رکے گی، جہاں بچے کا باپ رہتا ہے۔ بل کہ اس شہر میں آجائے گی جہاں اس کے ماں باپ یا کوئی قریبی عزیز رہتا ہے اور اگر اس کا دوسرا نکاح ہوجائے تو وہ اپنے شوہر کے شہر میں منتقل ہوجائے گی۔ کیا اس نقل ِ مکانی کی بنا پر عورت اپنے حق حضانت سے محروم ہوجائے گی؟

اگر ماں باپ کے حکم میں اختلاف ہو

اگر والدین (ماں باپ) اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کو کوئی حکم دیں اور اس حکم میں دونوں (ماں باپ) کے درمیان اختلاف ہوجائے اور ان میں سے کوئی حکم معصیت پر مبنی بھی نہ ہو تو اولاد پر کس کے حکم کی تعمیل لازم ہے؟ بہ طور ِ مثال میری والدہ مجھ سے کہیں کہ تم دہلی سے علی گڑھ جاؤ اور والد صاحب وہاں جانے سے منع کریں تو مجھ پر کیا لازم ہے؟ مجھے کس کا حکم ماننا چاہیے؟
میں نے جمعہ کے ایک خطبے میں سنا ہے کہ خدمت ماں کی باپ پر مقدم ہے، مگر حکم باپ کا ماں کے حکم پر فوقیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ باپ گھر کا ذمہ دار اور نگراں ہوتا ہے، اس لیے اس کے حکم کی تعمیل لازم ہے۔ امام صاحب نے یہ بھی کہا کہ ماں کا درجہ باپ کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بات نہ قرآن میں کہیں مذکور ہے نہ حدیث میں ۔
آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و حدیث کے حوالے سے تحریر فرمائیں کہ یہ دونوں باتیں کہاں تک صحیح ہیں ؟

دھوکا اور طلاق

ایک صاحب کا نکاح ہوا۔ انھوں نے بیوی کو مہر کے علاوہ ایک مکان بھی بہ طور تحفہ دیا اور اس کی گفٹ رجسٹری اس کے نام کروادی۔ مگر کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد جب اس بیوی سے ان کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تو ان کا دل پھر گیا۔ انھوں نے نہ صرف یہ کہ بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ، بل کہ اسے اطلاع دیے بغیر تحفے میں دیے گئے مکان کی رجسٹری بھی منسوخ کروا دی۔ اب وہ کہتے ہیں کہ کسی کو دیا گیا تحفہ واپس لیا جاسکتا ہے، شریعت میں اس کی ممانعت نہیں ہے۔ بہ راہ کرم ہماری رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا ان صاحب کی بات صحیح ہے؟

اگر کوئی شخص جانور ذبح کرتے وقت کلمۂ طیبہ پڑھ لے؟

میں ایک سلاٹر ہاؤس میں کام کرتا ہوں ۔ یہاں بڑے پیمانے پر جانوروں کا ذبیحہ ہوتا ہے۔ ذبح کا عمل صحیح اور شرعی طریقے سے انجام پائے اس کی نگرانی کے لیے دو مستند علماء مامور ہیں ۔ ابھی پچھلے دنوں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ٹرک سے جانوروں کو اتارتے وقت محسوس ہوا کہ ایک جانور بے دم ہو رہا ہے۔جھٹ سے ایک مزدور نے اس کی گردن پر چھری پھیر دی۔ البتہ چھری چلاتے وقت اس نے بسم اللہ، اللہ اکبر کہنے کی بہ جائے لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھا۔ خیال رہے کہ مزدور مسلمان تھا، لیکن ان پڑھ تھا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر پڑھا جاتا ہے۔ سوال پیدا ہوا کہ یہ ذبیحہ جائز ہوا یا نہیں ؟ سلاٹر ہاؤس کے عالم صاحب سے رجوع کیا گیا تو انھوں نے اسے ناجائز قرار دیا اور وجہ یہ بتائی کہ جانور ذبح کرتے وقت صرف اللہ تعالیٰ کا نام لینا چاہیے۔ غیر اللہ کا نام لینے سے ذبیحہ حرام ہوجاتا ہے۔ اس فتویٰ کے صحیح ہونے پر مجھے کچھ شبہ ہے۔ کیا کلمۂ طیبہ پڑھ کر ذبح کرنے سے جانور حرام ہوجائے گا؟ مزدور نے اسے اللہ کے رسول ﷺ کے نام سے تو نہیں ذبح کیا ہے؟
بہ راہِ کرم اس مسئلے پر قرآن و حدیث کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں ۔

مردوں کے لیے عورتوں سے علمی استفادہ؟

(۱) کیا کوئی عورت مردوں کے سامنے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے پردے کی حالت میں تقریر کرسکتی ہے؟
(۲) کیا کسی مسلم خاتون اسکالر کی تقاریر، دروس ِ قرآن و حدیث وغیرہ انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرکے، کسی مرد کے لیے سننا جائز ہے؟
بہ راہِ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل جواب سے نوازیں ۔

چہرہ اور آواز کا پردہ: معتدل نقطۂ نظر

’تحریکی خواتین کا دائرۂ عمل‘ کے زیر عنوان ایک مراسلہ نگار خاتون کی ذہنی الجھنوں اور عملی دشواریوں کا جو جواب محترم ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب نے عنایت فرمایا ہے، اس میں بعض امور قابل غور ہیں ۔ موصوف فرماتے ہیں کہ ’’بعض فقہاء عورت کی آواز کے پردے کے قابل ہیں ، لیکن بعض فقہاء کا خیال ہے کہ عورت کی آواز کا پردہ نہیں ہے۔‘‘ تائید میں انھوں نے سورۂ الاحزاب کی آیات: ۳۲- ۳۳، پیش کی ہیں ۔ اس سے موصوف نے یہ روشنی اخذ کی ہے کہ ’’اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ عورتیں اجنبی مردوں سے بات ہی نہ کریں ، بل کہ یہ حکم دیا گیا ہے کہ وقت ِ ضرورت بات کرتے وقت وہ اپنی آواز میں لوچ اور نرمی پیدا نہ کریں ‘‘ یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ ’روشنی‘ صحابۂ کرام کو بھی نظر آئی تھی؟ تابعین اور تبع تابعین نے بھی یہ روشنی اخذ کی تھی؟ اور ان حضرات کا اور ان کی خواتین کا عمل اسی روشنی میں تھا؟
مولانا مودودی آیت مذکور میں ’قَرْنَ‘کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’آیت کا منشا یہی ہے کہ عورت کا اصل دائرئہ کار اس کا گھر ہے۔ اس کو اس دائرے میں رہ کر اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں اور گھر سے باہر صرف بہ وقت ضرورت ہی نکلنا چاہیے۔‘‘
محترم ندوی صاحب نے ایک عالم دین کی حیثیت سے بتایا ہے کہ ’’اجنبی مردوں کے سامنے عورت کے چہرے کھولنے نہ کھولنے کا مسئلہ اختلافی ہے۔ اس سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ یہ اختلاف عہد صحابہ سے موجود ہے۔ دونوں گروہوں کے پاس مضبوط دلائل ہیں ۔ مناسب ہے کہ عورت کو آزادی دی جائے کہ وہ اپنے لیے جو موقف بہتر سمجھتی ہو اختیار کرلے۔‘‘
جماعت اسلامی کے بنیادی لٹریچر میں غالباً کوئی کتاب ایسی نہیں ہے، جس میں چہرے کے بے پردہ ہونے کے دلائل دیے گئے ہوں اور یہ ترغیب دی گئی ہو کہ جماعت سے منسلک خواتین خود انتخاب کرلیں کہ چہرہ کھول کر باہر نکلنے کا موقف انھیں پسند ہے یا چہرہ ڈھانپ کر۔ خود ندوی صاحب بھی فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ دونوں میں سے کس کو ترجیح دیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک دونوں قرآن و سنت کے مزاج کے عین مطابق ہیں ۔
میں اپنی تمام تحریکی بہنوں اور بیٹیوں سے گزارش کروں گا کہ وہ اس موضوع پر کم سے کم مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے مباحث پڑھ لیں ، جو سورۂ نور اور سورۂ احزاب میں ان بزرگوں نے تفہیم القرآن اور تدبر قرآن میں تفصیل سے فرمائے ہیں ۔ مولانا مودودیؒ کے بارے میں ندوی صاحب فرماتے ہیں : ’’مولانا مودودیؒ عورت کے لیے اجنبی مردوں سے چہرہ چھپانے کے قائل ہیں ۔‘‘ میں عرض کروں گا کہ صرف قائل نہیں ، بل کہ مدلل بحث کرکے فرماتے ہیں : ’عہد صحابہ و تابعین کے بعد جتنے بڑے بڑے مفسرین تاریخ اسلام میں گزرے ہیں انھوں نے بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔‘‘ مولانا نے تفصیل سے ان کی آراء نقل کی ہیں ۔ اور یہ عبارت تو انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے کہ ’’کسی شخص کی ذاتی رائے خواہ قرآن کے موافق ہو یا اس کے خلاف اور وہ قرآن کی ہدایت کو اپنے لیے ضابطۂ عمل کی حیثیت سے قبول کرنا چاہے یا نہ چاہے، بہ ہر حال اگر وہ تعبیر کی بد دیانتی کا ارتکاب نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ قرآن کا منشا سمجھنے میں غلطی نہیں کرسکتا۔ وہ اگر منافق نہیں ہے تو صاف صاف یہ مانے گا کہ قرآن کا منشا وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو خلاف ورزی بھی وہ کرے گا یہ تسلیم کرکے کرے گا کہ وہ قرآن کے خلاف عمل کر رہا ہے یا قرآن کی ہدایت کو غلط سمجھتا ہے۔‘‘
(تفہیم القرآن، جلد چہارم، ص ۱۳۲)
محترم ندوی صاحب آج جس معاشرے میں رہتے ہیں اس سے بہ خوبی واقف ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے سماج میں ’روشن خیالی‘ اور ’جدیدیت‘ کی جو لہر چل رہی ہے وہ ہماری خواتین اور خود ارکان و کارکنان کے لیے کتنی بڑی آزمائش ہے؟! ہر سطح کے اجتماعات میں اظہار خیال، درس، تقریر وغیرہ کے لیے خواتین کو استعمال کیا جا رہا ہے، ’غضِ بصر‘ کا کیا حشر ہورہا ہے؟!!
تحریکی رفقاء آواز اور چہرے کے پردے پر تو تفہیم القرآن، تدبر قرآن اور دیگر متعدد کتب کا مطالعہ کرتے ہیں اور دلائل سے بھی واقف ہیں ۔ البتہ کوئی کتاب غالباً اس موضوع پر اردو میں دستیاب نہیں ہے، جس میں خواتین کی آواز اور چہرے کی بے پردگی پر قرآن و سنت سے دلائل دیے گئے ہوں اور دور نبوی اور اس کے بعد کے ادوار میں اس کے رواج پانے کے ثبوت پیش کیے گئے ہوں ۔ میری ندوی صاحب سے درخواست ہے کہ وہ خود بھی اس پر لکھیں اور ایسی تصانیف کی نشان دہی بھی فرمائیں ، تاکہ ہم سب کو درست رائے قائم کرنے میں سہولت ہو۔

کالے خضاب کی شرعی حیثیت

میں سر اور داڑھی کے بالوں کی سفیدی دور کرنے کے لیے کالے خضاب کا استعمال کرتا ہوں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیث میں کالا خضاب لگانے سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے والد ابو قحافہ کے بارے میں حکم دیا تھا کہ ان کے بالوں کی سفیدی دور کردی جائے، لیکن کالے رنگ سے پرہیز کیا جائے۔
بہ راہِ کرم وضاحت فرمایے کہ خضاب کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا کالا خضاب استعمال کرنا پسندیدہ نہیں ہے؟ مارکیٹ میں بعض کمپنیوں کا تیار کردہ جو خضاب ملتا ہے اسے استعمال کرنے کے بعد کیا وضو اور غسل سے پاکی حاصل ہوجائے گی؟

مصنوعی استقرار حمل

ایک صاحب کی شادی تقریباً دس ماہ قبل ہوئی تھی۔ اس عرصے میں حمل کے آثار ظاہر نہیں ہوئے تو زوجین نے ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ ڈاکٹر نے مختلف طرح کے ٹیسٹ کرانے کے بعد بتایا کہ بچہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ عورت کی بچے دانی کا ٹیوب بند ہے۔ ہاں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا طریقہ اپنا کر استقرار حمل کروایا جاسکتا ہے۔
بہ راہِ کرم واضح فرمائیں ، کیا ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے استقرار حمل کروانا اور اس طریقے سے اولاد حاصل کرنا شرعی اعتبار سے جائز ہے؟