شادی کی رسمیں

میرے گاؤں میں چند رسوم رائج ہیں جو میرے خیال میں درست نہیں ہیں ۔ بہ راہِ کرم قرآن و حدیث اور شریعت کی روشنی میں ان پر مدلل اور مفصل اظہار خیال فرما دیں :
۱- شادی کے موقع پر لڑکے والوں کی طرف سے شادی کی تاریخ سے ایک یا دو روز پہلے گاؤں والوں کو گھر گھر کھانا پہنچایا جاتا ہے۔
۲- شادی کے موقع پر لڑکے والے لڑکی والوں سے کھانے کے لیے خاص خاص چیزوں کی فرمائش، بل کہ حکم صادر کرتے ہیں ۔
اس طرح کے کھانے کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ فقیروں کا کھانا ہے۔ بہ راہِ کرم واضح فرمائیں کہ ان رسوم کا شریعت کی روشنی میں کیا حکم ہے؟

محرمات سے علاج

کتابوں میں ایک روایت ملتی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے کسی خاص مرض میں مبتلا کچھ افراد کو ہدایت فرمائی تھی کہ فلاں مقام پر جاکر رہو اور وہاں کے اونٹوں کا دودھ بہ طور غذا اور ان کا پیشاب بہ طور دوا پیو تو شفا یاب ہوجاؤگے۔‘‘
اس ضمن میں چند امور وضاحت طلب ہیں :
(۱) کیا یہ روایت درست ہے؟ اگر ہاں تو اس واقعہ کی تفصیل کیا ہے؟
(۲) کیا رسول اللہ ﷺ نے کسی اور بیماری کے لیے کبھی اس طرح کا نسخہ تجویز فرمایا تھا؟
(۳) کچھ دواؤں کا تذکرہ ’طب نبوی‘ کے ذیل میں کیا جاتا ہے۔ کیا اونٹ کے پیشاب سے علاج کی یہ ہدایت بھی طب نبوی کے زمرہ میں شامل ہے؟ کیا آج بھی دواء ًا ایسا طریق علاج اختیار کیا جاسکتا ہے؟
(۴) کیا کوئی روایت ایسی ملتی ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ ایک عارضی حکم تھا اور بعد میں آں حضرتؐ نے اس طریق ِ علاج کو منسوخ کردیا تھا؟
(۵) ہندوستان کے کچھ علاقوں میں گدھی کا دودھ بہ طور غذا و دوا مستعمل ہے۔ کیا کسی مسلمان کے لیے گدھی کے دودھ کا استعمال جائز ہے؟

مصافحے کا مسنون طریقہ

مصافحے کا صحیح اور مسنون طریقہ کیا ہے؟ بعض حضرات دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے پر اعتراض کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سنت سے ثابت نہیں ہے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ، مصافحہ دونوں ہاتھوں سے ہونا چاہیے یا ایک ہاتھ سے؟

لباس کے حدود و قیود

لباس کے بارے میں ایک مضمون نظر سے گزرا جس میں لکھا گیا ہے کہ لباس میں اصل پہلو جواز کا ہے، ایک مسلمان اپنے علاقے کی عادات و اطوار کی رعایت کے ساتھ کوئی بھی لباس پہن سکتا ہے۔‘‘ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا یہ معاملہ پینٹ شرٹ کے ضمن میں بھی ہے، جب کہ یہ لباس مسلم غیر مسلم سب کے لیے عام ہے؟ لباس کے بارے میں ایک ہدایت یہ ملتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ٹخنوں تک رہے۔ یہ بھی ملتا ہے کہ جو لباس تکبر کی نیت سے ٹخنوں سے نیچے ہو وہ حرام ہے۔ آج کے دور میں عام مسلمان مقامی ماحول اور رواج کے مطابق جو پینٹ پہنتے ہیں وہ عموماً ٹخنوں سے نیچے ہوتا ہے، اس میں فخر اور تکبر کی نیت یا علامت نہیں ہوتی۔ اسے خاص و عام، امیر و غریب، مسلم غیر مسلم سب استعمال کرتے ہیں ۔ کیا اسے استعمال کرنا جائز ہے؟

مردوں اور عورتوں کے مشترکہ دینی اجتماعات

زندگی ِ نو میں ’رسائل و مسائل‘ کالم میں کچھ عرصہ پہلے ’تحریکی خواتین کا دائرۂ عمل‘ کے عنوان کے تحت آپ نے جو جواب تحریر کیا تھا، وہ یقینا تحریکی خواتین کے بہت سے خدشات دور کرنے والا تھا۔ اس سلسلے میں کچھ اور سوالات ذہن میں ابھرے ہیں ۔ بہ راہ کرم ان کے جوابات سے نوازیے۔
ہمارے تحریکی اجتماعات عموماً مسجدوں میں ہوتے ہیں ۔ خواتین مسجد کے ایک کمرے میں بیٹھتی ہیں اورSound Box کے ذریعے درس قرآن یا تقریر سنتی ہیں ۔ بعض اجتماعات دوسرے مقامات پر ہوتے ہیں ۔ وہاں پردے کے ذریعے خواتین کی نشست الگ کردی جاتی ہے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ مرد شرکاء کے پیچھے ایک بڑا پردہ لگادیا گیا۔ خواتین اس کے پیچھے برقع میں بیٹھیں ۔ اجتماع کے اختتام پر ایک ذمے دار نے کہا کہ یہ پردہ نہیں ، بلکہ پردہ در پردہ ہے۔ ابھی حال میں میقاتی پروگرام کی تفہیم کے لیے صرف خواتین کا اجتماع منعقد ہوا۔ اس میں کوئی مرد شریک نہیں تھا، سوائے حلقے کے دو ذمے داروں اور مقامی امیر کے۔ یہ تینوں حضرات کرسیوں پر بیٹھے، ان کے روٗ بروٗ خواتین برقعے میں بیٹھیں ۔ یہ پروگرام مسجد میں صبح گیارہ بجے سے شام چار بجے تک چلتا رہا۔ آپ چاہے انبیائے کرام علیہم السلام کے اوصاف کے حامل کیوں نہ ہوں اور چاہے آپ کا دل و دماغ کتنا ہی پاک صاف اور شیطان کے شر سے کتنا ہی محفوظ کیوں نہ ہو، لیکن اس کے باوجود ایسی نشست کہاں تک تحریکی مزاج سے مطابقت رکھتی ہے۔
میرے ناقص خیال میں چہرے کے پردے میں آنکھیں بھی شامل ہیں اور آج کل کے پردے میں آنکھوں کا کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ اگر ہم نفسیاتی طور پر جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ آنکھیں دراصل انسانی جذبات و کیفیات کی ترجمان ہوتی ہیں ۔ انسان کے غصے، خوف، نفرت، عداوت اور محبت سب کا اظہار اس کی آنکھوں سے ہوتا ہے۔ امام غزالیؒ نے اپنی تصنیف ’احیاء علوم الدین‘ میں لکھاہے کہ ’’انسان کے دل میں شیطان آنکھوں کی راہ سے داخل ہوتا ہے‘‘ اور آج کل کا پردہ دیگر دروں کو بند کرتا ہے، لیکن اصل در کو کھلا چھوڑ دیتا ہے۔
تحریک میں پہلے کی بہ نسبت اب خواتین کی تعداد بڑھنے کے ساتھ اجتماعات کی شکل اور نوعیت بھی بدلتی جا رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ مشترکہ اجتماعات کی شکل و صورت متعین کی جائے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں کہ مشترکہ تحریکی اجتماعات میں خواتین کی نشست کہاں پر ہو؟ وہ اجتماع گاہ سے متصل کمرے میں بیٹھیں ، یا مرد شرکاء کے پیچھے برقعے میں بیٹھیں ، یا پھر مردوں کے پیچھے ایک بڑا پردہ باندھ دیا جائے، جس کے پیچھے خواتین کی نشست ہو؟

لڑکی کی پیدائش اور سماجی رویّہ

میں الحمد للہ ایک دین دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں ۔ میری سسرال میں بھی دین کا خوب چرچا ہے۔ میری پانچ بچیاں ہیں ۔ جب میری پہلی بچی ہوئی تو سسرال میں خوب جشن منایا گیا، مٹھائیاں تقسیم کی گئیں ، دوسری اور تیسری بچی کی ولادت کے موقع پر بھی خوشی کا اظہار کیا گیا، لیکن کم کم، پھر جب چوتھی بچی ہوئی تو سسرال کے لوگوں کا انداز بدلنے لگا۔ کسی نے کھلے الفاظ میں کچھ کہا تو نہیں ، لیکن دبی زبان میں اس خواہش کا اظہار ہونے لگا کہ اب لڑکا چاہیے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر لڑکی دے دی۔ اب میرے ساتھ اس طرح برتاؤ کیا جانے لگا، گویا لڑکیوں کی پیدائش کی میں ہی قصوروار ہوں ۔ اس طرح کے مشورے بھی میرے کانوں میں پڑنے لگے کہ اگر لڑکا چاہیے تو میرے شوہر کو دوسری شادی کرلینی چاہیے۔ اب میں پھر امید سے ہوں ۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ اگر پھر لڑکی ہوئی تو سسرال میں میں کہیں کی نہیں رہوں گی۔ کبھی جی میں آتا ہے کہ اسقاط کروالوں ۔ لیکن یہ سوچ کر رک جاتی ہوں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ میں ان دنوں بہت پریشان ہوں ۔ بہ راہِ کرم میری رہ نمائی فرمائیں ۔ میں کیا کروں ؟

مجلس کے آداب

اجتماعات میں ہمارے بعض ساتھی دیر سے پہنچتے ہیں ۔ کوئی شخص دیر سے پہنچے تووہ خاموشی سے بیٹھ جائے یاسلام کرکے بیٹھے ؟ اگروہ سلام کرے تو کیا مجلس کے کسی ایک فرد کی طرف سے سلام کا جواب دے دینا کافی ہے؟
اسی طرح اگرکبھی کوئی شخص تنہا قرآن کی تلاوت کررہا ہویا کسی دینی کتاب کا مطالعہ کررہا ہو اور دوسرا شخص وہاں آکر اس کو سلام کرے توکیا اس کے لیے سلام کا جواب دینا ضروری ہے؟
یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ کیا کسی مجلس میں بیٹھے ہوئے شخص کے لیے انگلیاں چٹخانے کی ممانعت احادیث میں آئی ہے ؟

پانی پینے کا ادب

کیا صحیح احادیث میں بیٹھ کر پانی پینے کا حکم دیا گیا ہے ؟ آج کل بعضـ لوگ اس کا انکار کر تے ہیں ۔ براہ کرم احادیث کی روشنی میں اظہار خیال فرمائیں ۔

کھانے کا ایک ادب

ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ پیٹ کے تین حصے کیے جائیں : ایک کھانے کےلیے، دوسرا پینے کے لیے ، تیسرا خالی رکھا جائے۔ آج کل ڈاکٹر حضرات کھانا کھانے کے ساتھ پانی پینے کو مضر گردانتے ہیں اور اس سے منع کرتے ہیں  ، جب کہ اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ کھانا کھانے کے بعد پانی کے لیے جگہ خالی رکھی جائے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمادیں ؟

کیا حمل کے ابتدائی ایام میں اسقاط کی اجازت ہے؟

حمل کے ابتدائی تین مہینوں میں چوں کہ بچے میں جان نہیں پڑتی ، اس لیے کیا اس مدت میں حمل کو ضائع کروانا کوئی گناہ نہیں ہے؟اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیے۔ بہت سی خواتین اس مدت میں اسقاط کر وانے کو گناہ نہیں سمجھتی ہیں ۔