مہر
کیا آپ کے نزدیک یہ قانون بن جانا چاہیے کہ معاہدۂ ازواج میں جو مہر مقرر کیا گیا ہے خواہ اس کی مقدار کتنی ہی کثیر کیوں نہ ہو وہ شوہر کے لیے واجب الادا ہے؟
کیا آپ کے نزدیک یہ قانون بن جانا چاہیے کہ معاہدۂ ازواج میں جو مہر مقرر کیا گیا ہے خواہ اس کی مقدار کتنی ہی کثیر کیوں نہ ہو وہ شوہر کے لیے واجب الادا ہے؟
کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ مطالبۂ مہر کے لیے ازروے قانون کسی مدت کی تحدید نہ ہو؟
اس بارے میں آپ کی کیا راے ہے کہ اگر نکاح نامے میں اداے مہر کی صورت کا کوئی تعیّن نہ ہو تو نصف مہر معجل (عندالطلب) اور نصف غیر مؤجل (بعد انفساخِ نکاح یا وفات شوہر یا بصورتِ طلاق) شمار ہو؟
موجودہ قانون کی رُو سے بچوں کی حضانت کا حق ماں کو خاص عمروں تک حاصل ہے۔ یعنی لڑکا ہو تو سات سال اور لڑکی ہو تو بلوغ تک۔ حضانت کے لیے عمروں کا یہ تعیّن نہ قرآن میں ہے اور نہ کسی حدیث میں ، بلکہ یہ بعض فقہا کا اجتہاد ہے۔ کیا آپ کے نزدیک اس میں کوئی ترمیم ہو سکتی ہے؟
کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ کوئی شوہر کسی معقول وجہ کے بغیر بیوی کو گزارہ نہ دے تو بیوی کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ خاص ’’ازدواجی و عائلی عدالت‘‘ میں اس پر دعویٰ دائر کر سکے؟
موجودہ کریمینل پروسیجر کوڈ (ضابطۂ فوج داری) کی دفعہ ۴۸۸ کے مطابق بیوی عدالت فوج داری میں نفقے کا دعویٰ کر سکتی ہے لیکن عدالت فوج داری زیادہ سے زیادہ سو روپے ماہانہ دلوا سکتی ہے۔ کیا آپ اس مقدار کے اضافے کے حق میں ہیں ؟
کیا آپ اس تجویز کے حق میں ہیں کہ ایک بیوی گزشتہ تین سال تک کے نفقے کا مطالبہ کر سکے؟
کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ اگر بیوی نے نکاح نامے میں میعادِ نفقہ کے متعلق خاص شرط لکھوا لی ہو تو اسے محض مدتِ عدت تک ہی نہیں بلکہ مدت مشروطہ تک نفقہ ملے؟
کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ باپ کی عدم موجودگی میں عدالت ماں کو بچوں کی املاک کی متولیہ قرار دے بشرطیکہ عدالت کے نزدیک اس کا تقرر بچوں کی بہبود اور املاک کے تحفظ کے منافی نہ ہو؟
کیا آپ یہ قانون بنانے کے حق میں ہیں کہ نابالغوں کی املاک کے متولی کو یہ اختیار حاصل نہ ہو کہ وہ عدالت کی اجازت کے بغیر املاک کو فروخت یا رہن کر سکے؟