فرقہ بندی کے معنیٰ

آپ اپنی جماعت کے لوگوں کو سختی کے ساتھ فرقہ بندی سے منع کرتے ہیں ۔اس ضمن میں میرا سوال یہ ہے کہ آخر صوم وصلاۃ وحج وغیرہ ارکان کو کسی نہ کسی مسلک کے مطابق ہی ادا کرنا ہوگا۔ تو پھر بتایئے کہ کوئی مسلمان فرقہ بندی سے کیسے بچ سکتا ہے؟میرا اپنا یہ خیال ہے کہ بموجب آپ کی راے کے کہ قرآن وحدیث کے موافق جو مسئلہ ملے اس پر عمل کیا جائے، بجز اہلِ حدیث کے کسی فرقے کے ہاں جملہ جزئیات میں قرآ ن وحدیث سے مطابقت نہیں پائی جاتی۔پس میں نے فی الجملہ مسلک اہل ِ حدیث کو اپنے لیے پسند کیا ہے، پھر کیا میں بھی فرقہ بندی کے الزام کا مورد ٹھیروں گا؟

فقہی اختلاف کے باوجود نماز با جماعت ادا کرنا

میرا تعلق جس فرقے سے تھا، اس کے بعض سنجیدہ علما یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب آپ فقہی مسلک میں جماعت اسلامی کے ارکان کو آزادی دیتے ہیں اور واقعتاً جزوی معاملات میں مختلف گروہ متحد الخیال ہیں بھی نہیں ، تو پھر آپ نماز کی جماعت میں سب کی شرکت کو لازمی کیوں قرار دیتے ہیں ؟ خود نماز سے متعلقہ مسائل میں بہت اختلافات ہیں اور ان کی بِنا پر لوگ اپنی نمازیں الگ پڑھنا چاہتے ہیں !

فقہی اختلافات کی بِنا پر بعض صورتوں میں حنفی،اہل حدیث اور شافعی حضرات علیحد ہ علیحدہ نماز پڑھنے پرمجبور ہوجاتے ہیں ۔مثلاً ایک گروہ اوّل وقت نماز پڑھنے کو ترجیح دیتا ہے اور دوسرا تاخیر کو افضل سمجھتا ہے۔اب ان سب کا مل کر ایک جماعت میں نماز پڑھنا کسی نہ کسی کو افضل نماز سے محروم ہی کرے گا۔اگر ’’افضل نماز‘‘ کی کوئی اہمیت ہے تو پھرآپ کیوں اس’’ایک ہی جماعت‘‘ کے اُصول پر اتنا زور دیتے ہیں ؟

مختلف فیہ گمراہ امام کے پیچھے نماز

ایک صاحب نے ہمارے ایک سوال کے جواب میں آپ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ غیر صالح العقیدہ لوگوں کے پیچھے بھی عام مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھ لینی چاہیے اور تفرقے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ہمیں یاد ہے کہ آپ نے ایک خط میں ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں یہ فرمایا تھا کہ جس شخص کے متعلق مشرکانہ عقائد رکھنا بالکل متحقق ہوجائے اس کے پیچھے تو نماز پڑھنے سے احتراز کرنا چاہیے ،مگر جس شخص کے عقائد کی حقیقت معلوم نہ ہو اس کی امامت میں نماز پڑھنا چاہیے۔ان دونوں جوابات میں جو فرق ہے اس کی وجہ سے یہاں بہت پیچیدگی پیدا ہوگئی۔ ذرا وضاحت کے ساتھ صحیح مسلک کی نشان دہی فرمایئے۔

مسلکی اختلافات اوروالدین کے حقوق کا دائرہ

میرے والد مکرم،جو جماعت اسلامی کے رکن بھی ہیں ، محض نماز میں رفع یدین کا التزام چھوڑدینے کی وجہ سے انھوں نے مجھے یہ نوٹس دے دیا ہے کہ اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو پھر ہمارے تمھارے درمیان سلام کلام کا تعلق برقرار نہیں رہ سکتا۔ میں نے انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اب یہ قضیہ میرے اور والد مکرم کے حلقۂ تعارف میں بحث کا موضوع بن گیا ہے اور دونوں کی تائید وتردید میں لوگ زورِ استدلال صرف کررہے ہیں ۔
مجھ پر جو بے سروپا اعتراضات عموماًہورہے ہیں ، ان کا خلاصہ یہ ہے: تو حنفی ہوگیا ہے ۔تیرا دو طریقوں پر عمل کرنا دو عملی اور نفاق ہے ۔تم جماعت کی اکثریت سے مرعوب ہوگئے ہو۔تمھارا اصل مقصود جلبِ زر اور حصولِ عزت ہے ، تمھیں احناف نے یہ پٹی پڑھائی ہے۔ تو مودودی صاحب کا مقلد ہے وغیرہ۔
والدین کے حقوق کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟کیا وہ اولاد سے مسائل کی تحقیق کا اور اپنی تحقیق کے مطابق عمل کرنے کا حق بھی سلب کرسکتے ہیں ؟کیا میں والدین کی مرضی کے خلاف مسلکِ اہل حدیث کی خلاف ورزی( یعنی ترک رفع یدین) کرنے پر سخط الرب فی سخط الوالدین ({ FR 1662 })کی وعید کا مستوجب ہوجائوں گا؟میں اپنے اطمینان کے لیے اس مسئلے کی وضاحت چاہتا ہوں ۔

اختلافی مسائل پر اُمت سازی کا فتنہ

مجھے مذہبی تنازع اور تفرقے سے فطری بُعد ہے اور وہ تمام جزوی مسائل جن میں اختلاف کی گنجائش خود شریعت میں موجود ہے، ان میں اختلاف کو جائز رکھتا ہوں ۔ اسی طرح اگر نبی ﷺ سے کسی معاملے میں دو یا تین طریقہ ہاے عمل ثابت ہوں تو ان سب کو جائز اور سنت کی حدکے اندر شمار کرتا ہوں ۔مثلاً نماز میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا میرے نزدیک دونوں برابر ہیں ۔چنانچہ میں ان دونوں صورتوں پر عمل کرلیتا ہوں ،کبھی اِس پر اور کبھی اُس پر۔مجھے اپنے اس مسلک پر پورا پورا اطمینان ہے اور میں نے سوچ سمجھ کر اِسے اختیار کیا ہے۔ اپنے اطمینان کے لیے وضاحت مطلوب ہے۔

اختلاف کے جائز حدود

تحریک کا ہم درد ہونے کی حیثیت سے اس کے لٹریچر اور جرائد واخبارات کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں ۔اب تک بزرگان دیو بند اور دوسرے علما کی طرف سے جو فتوے شائع ہوتے رہے ہیں اور ان کے جو جوابات امیر جماعت ہند و امیر جماعت پاکستان ودیگر اراکین جماعت کی طرف سے دیے گئے ہیں ، سب کو بالالتزام پڑھتا رہا ہوں ۔اپنے بزرگوں کی اس حالت کو دیکھ کر بہت صدمہ ہوتا ہے مگر سواے افسوس کے اور چارہ کوئی نظر نہیں آتا۔
ان فتووں کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ تکفیر وتفسیق کا معاملہ جماعتِ اسلامی اور بزرگان دیو بند ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے،بلکہ جب ہم اسلاف کرام و ائمۂ عظام کی سیرتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم ان بزرگوں کی سیرتوں میں بھی اس مسئلے کو مختلف فیہ پاتے ہیں ۔مثلاً ایک گروہ میں امام ابن تیمیہؒ، امام ابن حزم اَندلسیؒ، امام ابن جوزیؒ وغیر ہم اکابر ہیں ۔دوسرے گروہ میں امام ابن العربی ؒ،امام غزالی اور امام ولی اﷲؒجیسے بزرگ ہیں ۔ان میں سے پہلا گروہ کہتا ہے کہ لا الٰہ اِلا اللّٰہ کا مطلب لا معبود الا اللّٰہ ({ FR 1605 }) ہے، دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس کا مطلب لا موجود الا اللّٰہ ({ FR 1606 })ہے۔ پہلا گروہ دوسرے گروہ کے اس عقیدے کو کفر والحاد کہتا ہے۔دوسرا گروہ اپنے اس عقیدے کو توحید کا اعلیٰ واکمل درجہ تصور کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ و ہ کلمہ جس کی تشریح کے لیے قرآن نازل کیا گیا،اسی کے متعلق علماے اُمت وائمۂ وقت کا یہ اختلاف کیوں ہے؟
اُمید ہے کہ آپ اس مسئلے پر ترجمان القرآن میں مفصل بحث فرمائیں گے۔