مسلکی اختلافات اوروالدین کے حقوق کا دائرہ

میرے والد مکرم،جو جماعت اسلامی کے رکن بھی ہیں ، محض نماز میں رفع یدین کا التزام چھوڑدینے کی وجہ سے انھوں نے مجھے یہ نوٹس دے دیا ہے کہ اگر تم نے اپنی روش نہ بدلی تو پھر ہمارے تمھارے درمیان سلام کلام کا تعلق برقرار نہیں رہ سکتا۔ میں نے انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اب یہ قضیہ میرے اور والد مکرم کے حلقۂ تعارف میں بحث کا موضوع بن گیا ہے اور دونوں کی تائید وتردید میں لوگ زورِ استدلال صرف کررہے ہیں ۔ مجھ پر جو بے سروپا اعتراضات عموماًہورہے ہیں ، ان کا خلاصہ یہ ہے: تو حنفی ہوگیا ہے ۔تیرا دو طریقوں پر عمل کرنا دو عملی اور نفاق ہے ۔تم جماعت کی اکثریت سے مرعوب ہوگئے ہو۔تمھارا اصل مقصود جلبِ زر اور حصولِ عزت ہے ، تمھیں احناف نے یہ پٹی پڑھائی ہے۔ تو مودودی صاحب کا مقلد ہے وغیرہ۔ والدین کے حقوق کا دائرہ کتنا وسیع ہے؟کیا وہ اولاد سے مسائل کی تحقیق کا اور اپنی تحقیق کے مطابق عمل کرنے کا حق بھی سلب کرسکتے ہیں ؟کیا میں والدین کی مرضی کے خلاف مسلکِ اہل حدیث کی خلاف ورزی( یعنی ترک رفع یدین) کرنے پر سخط الرب فی سخط الوالدین ({ FR 1662 })کی وعید کا مستوجب ہوجائوں گا؟میں اپنے اطمینان کے لیے اس مسئلے کی وضاحت چاہتا ہوں ۔
جواب

جس نزاع کا آپ نے ذکر کیا ہے ،اس کا حال پڑھ کر مجھے بہت رنج ہوا۔ مجھ کو اس بات کی ہرگز توقع نہ تھی کہ جماعت اسلامی میں ایسے لوگ موجود ہوں گے جو فقہی مسائل میں تعصب اور تشدد کی اس حد کو پہنچے ہوئے ہوں گے۔اگر آپ جیسا قابلِ اعتماد آدمی ان حالات کا راوی نہ ہوتا اور ایک دوسری اطلاع سے آپ کے بیان کی تائید نہ کی گئی ہوتی تو شایدمیں اس بات کو باور کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا کہ واقعی ہماری جماعت میں ایسی صورت حال پیدا ہوئی ہو گی۔ بہرحال اب جب کہ اس نزاع نے سر اُٹھا ہی لیا ہے، میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس معاملے کی اُصولی اور فقہی اور جماعتی حیثیت کو صاف صاف واضح کردوں ۔
آپ کے والد ماجد نے اس قضیے میں جو رویہ اختیارکیا ہے، اس کی دو حیثیتیں ہیں :ایک رکن جماعت ہونے کی حیثیت، اور دوسری آپ کے والد ہونے کی حیثیت۔ جہاں تک پہلی حیثیت کا تعلق ہے ،اس پر میں ] سوال نمبر۷۹۰ [ میں روشنی ڈال چکا ہوں ، لہٰذا وہ براہ کرم اپنے متعلق فیصلہ کرلیں کہ آیا وہ اپنے رویے کو بدلناپسند فرماتے ہیں یاجماعت سے علیحدگی۔ رہی دوسری حیثیت ،تو اس کے متعلق میں مختصر طور پر صرف یہ کہہ دینا کافی سمجھتا ہوں کہ جہاں تک اُصول دین کا تعلق ہے،والدین کو نہ صرف یہ حق ہے بلکہ یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اعتقادی ضلالت یا اخلاقی فساد سے روکنے کی کوشش کریں ۔ لیکن جہاں تک فقہی معاملات کا تعلق ہے، والدین کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اولاد کو اپنے مسلک خاص کی پیروی پر مجبور کریں ۔ خصوصاً جب کہ اولاد صاحب علم ہو اور تحقیق کی بِنا پر والدین سے مختلف کسی دوسرے مسلکِ فقہی کو اختیار کرنا چاہے تو والدین کے لیے یہ مطالبہ کرنا کسی طرح درست نہیں ہے کہ وہ اپنی تحقیق کے خلاف عمل کرے۔اس معاملے میں سلف کا صحیح اتباع یہ ہے کہ والدین اور اولاد دونوں کو تحقیق کی آزادی اور اپنی تحقیق پر عمل کرنے کاحق ہونا چاہیے۔اس حق کو سلب کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر ایک شخص اہل حدیث یا حنفی یا شافعی ہو تو وہ اپنی آئندہ نسل کو بھی اہل حدیث، حنفی یا شافعی بنانے پر اصرار کرے گا اور دو چار پشتیں گزر جانے کے بعد یہ طریقے محض فقہی مسلک نہ رہیں گے بلکہ نسلی اُمتیں بن جائیں گے جن میں تعصب ہوگا،جمود ہوگا اور آبائی مسلک سے ہٹنا ارتداد کا ہم معنی قرار پائے گا۔آپ خود اپنے والد ماجد ہی سے دریافت فرمائیں کہ آیا وہ اپنی آیندہ نسل کو اسی فتنے میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں ؟ (ترجمان القرآن ، جولائی،اگست ۱۹۴۵ء)