نماز ِ وتر کی رکعتیں
ہم عشاء میں نماز وتر تین رکعت پڑھتے ہیں ۔ سنا ہے ایک سے دس رکعت تک نماز وتر پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ کہاں تک صحیح ہے؟ کیا ایک رکعت وتر بھی پڑھی جاسکتی ہے؟
ہم عشاء میں نماز وتر تین رکعت پڑھتے ہیں ۔ سنا ہے ایک سے دس رکعت تک نماز وتر پڑھی جاسکتی ہے۔ یہ کہاں تک صحیح ہے؟ کیا ایک رکعت وتر بھی پڑھی جاسکتی ہے؟
شب معراج اور شب برأت میں مخصوص طریقے سے نماز ادا کی جاتی ہے۔ قل ھو اللّٰہ احد یا دوسری سورتیں ہر رکعت میں مخصوص تعداد میں پڑھی جاتی ہیں ۔ اس کا کیا حکم ہے؟
صلوٰۃ التسبیح مخصوص طریقے سے ادا کی جاتی ہے۔ اس میں متعین تعداد میں تسبیحات پڑھی جاتی ہیں ۔ ان کی شرعی حیثیت کیا ہے اور صلوٰۃ التسبیح پڑھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
(۱) خواتین کا مسجد میں آکر باجماعت نماز ادا کرنا جائز ہے یا ناجائز؟
(۲) دیگر مسلم ممالک میں (جہاں اسلامی قوانین نافذ ہیں ) خواتین مسجد میں نماز ادا کرتی ہیں تو ہندستان میں اس پر واویلا کیوں ہے؟
(۳) اسلام میں بہت سے کاموں کی اجازت ناپسندیدگی یا سخت شرائط کے ساتھ دی گئی ہے (تین طلاق اور ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی وغیرہ) لیکن انھیں آج بھی ناجائز یا حرام قرار نہیں دیا جاتا تو پھر خواتین کے مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کو پردہ کی شرائط کی پابندی کی تلقین کے بجائے ناجائز کہنا کیوں کر درست ہے؟
(۴) خواتین کے مسجد میں نماز پڑھنے کی پابندی کو حضرت عمرؓ سے منسوب کیا جا رہا ہے، جب کہ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے یہ واقعہ بھی منقول ہے کہ حضرت عمرؓ کے بیٹے حضرت بلالؓ نے جب یہ کہا تھا کہ ’’اللہ کی قسم ہم اپنی عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے‘‘ تو یہ سن کر حضرت عمرؓ حضرت بلالؓ پر بہت ناراض ہوئے تھے اور کہا تھا کہ میں تو رسول اللہﷺ کا فرمان بیان کرتاہوں کہ ’’انھیں اجازت دو‘‘ اور تو کہتا ہے کہ ہم اجازت نہیں دیں گے‘‘ اس واقعے کی روشنی میں عورتوں کے مسجد میں نماز کے لیے آنے پر پابندی کی وضاحت فرمائیں ۔
(۵) عیدین اور جمعہ کی نمازیں جو کہ جماعت کے بغیر ادا نہیں ہوتیں ، کیا خواتین کو ان سے مستثنیٰ رکھنے کا کوئی حکم قرآن و حدیث میں کہیں موجود ہے؟ اور اگر نہیں تو پھر وضاحت فرمائیں کہ وہ مسجد میں آکر جماعت میں شریک ہوئے بغیر یہ نمازیں کس طرح ادا کرسکتی ہیں ؟ اگر پردہ اور الگ صفوں کا معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان نمازوں کو ادا کرنے سے محروم رہتی ہیں تو کیا اس کا گناہ مردوں کے سر نہیں ہے، جو ان نمازوں کے لیے خواتین کے مسجد میں آنے کا معقول انتظام کرنے کے بجائے ان کا مسجد میں آنا ہی ممنوع قرار دیتے ہیں ؟
تراویح کی تعداد رکعت کیا ہے؟کیاصحیح احادیث میں آٹھ،بیس،اڑ تیس یا چالیس رکعتیں نبی ﷺ سے ثابت ہیں ؟
علماے کرام بالعموم یہ کہتے ہیں کہ تراویح اوّل وقت میں (عشا کی نماز کے بعد متصل) پڑھنا افضل ہے اور تراویح کی جماعت سنت مؤکدہ کفایہ ہے۔ یعنی اگر کسی محلے میں تراویح باجماعت نہ ادا کی جائے توا ہل محلہ گناہ گار ہوں گے، اور دو آدمیوں نے بھی مل کر مسجد میں تراویح پڑھ لی تو سب کے ذمے سے ترک جماعت کا گناہ ساقط ہوجائے گا۔کیا یہ صحیح ہے؟اگر یہ صحیح ہے تو حضرت ابو بکر صدیق ؓکے زمانے میں کیوں ایسا نہیں ہوا؟اور اُس زمانے کے مسلمانوں کے لیے کیا حکم ہوگا؟ کیا وہ سب تراویح باجماعت نہ پڑھنے کی وجہ سے گناہ گار تھے؟
کیا نماز تراویح اوّل وقت میں سونے سے پہلے پڑھنا ضروری ہے؟کیا سحری کے وقت تراویح پڑھنے والا فضیلت واولویت سے محروم ہوجائے گا؟اگر محروم ہوجائے گا تو حضرت سیّدنا حضرت عمر فاروقؓ کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے کہ اَلَّتِی تَنَامُونَ عَنْھَا أَفْضَلُ مِن الَّتِی تَقُوْمُوْنَ؟({ FR 1929 })
کیا کسی صحابی کو یہ حق حاصل ہے کہ نبی ﷺ جس چیز کو یہ کہہ کر رد کردیں کہ مَا زَالَ بِكُمْ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ مَا قُمْتُمْ بِهِ، فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ({ FR 2061 }) تو وہ اُسے پھر باقاعدہ جماعت کے ساتھ مساجد میں جاری کرے؟
کیا حضور ﷺ بھی روزانہ پانچ نمازیں بجا لاتے تھے ؟اور اتنی ہی رکعتیں پڑھتے تھے جتنی ہم پڑھتے ہیں ؟اس سوال کی قدرے میں نے تحقیق کی لیکن کوئی مستند حوالہ فی الحال ایسا نہیں ملا کہ اس سوال کا جواب ہوتا۔ بخلاف اس کے بخاری شریف میں یہ حدیث نظر آئی کہ نبیؐ نے ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھیں ۔({ FR 2187 })اسی طرح مؤطا کتا ب الصلاۃ میں یہ لکھا دیکھا کہ رات دن کی نماز دو دو رکعت ہے۔({ FR 2188 }) یہ دونوں حدیثیں دو دو رکعت نماز ثابت کرتی ہیں ۔
ان خیالات وشکو ک نے ذہن کو پراگندہ کررکھا ہے اور اکثر مجھے یقین سا ہونے لگتا ہے کہ ہماری موجودہ نماز وہ نہیں جو آں حضرت ﷺ نے بتائی ہو گی۔ خدارا میری اُلجھن کو دور فرمایے اور مجھے گمراہ ہونے سے بچایے۔مجھے نما ز چھوٹ جانے کا خطرہ ہے۔
ترجمان، جلد۵، عدد امیں قُطبین میں اوقات سحر وافطار پر ڈاکٹر حمید اﷲ کا مضمون شائع کیا گیا ہے۔اسی بحث کو زیادہ تفصیل سے ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب ’’انٹروڈکشن ٹو اسلام‘‘ میں پیش کیا ہے۔ پہلی دفعہ میں نے سرسری نظر سے مضمون دیکھا تو اچھا لگا۔ لیکن دوبارہ غور سے پڑھنے پر سخت قابل اعتراض محسوس ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کا استدلال یہ ہے کہ خط استوا سے قُطبین کی طرف جائیں تو دن اور رات کا تفاوت بڑھتا چلا جاتا ہے۔۴۵ درجے عرض البلد تک تو یہ تفاوت قابل برداشت ہوتا ہے لیکن اس سے آگے نہیں ۔ لہٰذا اس عرض البلد سے آگے تمام مسلمان ۴۵درجے کے اوقات طلوع وغروب کے مطابق نماز روزے کا اہتمام کریں ۔
اگر اس تجویز کو مان لیا جائے توکینیڈا، امریکا کے شمالی حصے،سارے یورپ،ماسوا اسپین اور اٹلی کے، نیز تقریباًپورے روس کے مسلمانوں کو اپنے مقام کے طلوع وغروب کے حساب سے ارکان دین ادا کرنے کے بجاے گھڑی کے حساب سے سارے کام کرنے چاہییں ۔میری اطلاع ہے کہ پیرس مسجد کی اقتدا میں پیرس کے مسلمان رمضان میں یہی کرتے ہیں ۔ وہ ریڈیو مراکش لگائے رکھتے ہیں اور جیسے ہی مراکش میں افطار کی اذان ہوتی ہے،وہ افطار کرلیتے ہیں چاہے سور ج سر پر کھڑا ہو۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟
میں نے لندن کا سب سے طویل روزہ دیکھا ہے۔سحر سے افطار تک تقریباً ۱۷گھنٹے بنے تھے۔ لیکن پنجاب کے تیرہ چودہ گھنٹے کے روزے زیادہ مشکل معلوم ہوتے ہیں ۔اتنے طویل روزے کے باوجود افطارکے وقت پیاس بالکل نہ ہوتی تھی۔ بھوک ضرور لگتی تھی، لیکن اس سے طبیعت اتنی نڈھال نہ ہوتی تھی جتنی اپنے ہاں ہوتی ہے۔ آخر یورپ کے مسلمانو ں کے لیے کیوں کر جائز ہے کہ وہ مقامی طلوع وغروب کو نظر انداز کرکے مراکش کی پیروی کریں ؟
میرے ایک شناسا نے ڈاکٹر حمید اﷲسے لکھ کر پوچھا تھا کہ۴۵ عرض البلد انھوں نے کیوں کر تجویزکیا۔ جواب ملا کہ صحابہ ؓ یہیں تک گئے تھے،اس لیے اسے حد کے طور پر لیا ہے۔
اس مسئلے پر آپ کی کیا راے ہے؟رسائل ومسائل میں آپ کے جواب نظر سے گزرے ہیں لیکن وہ بہت عمومی قسم کے ہیں ۔یہاں ڈاکٹرصاحب نے اتنی تفصیل میں جاکر معمولی اور غیر معمولی منطقوں کی حدود کا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔لندن میں یہ سوال اس لیے اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ یورپین نو مسلم سورج کے بجاے گھڑی کے مطابق عبادات قائم کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کا بس چلے تو جمعے کی نماز اتوار کو ادا کریں ۔یہ تجویز کئی دفعہ میرے سامنے آئی ہے۔