اگر دوران ِ روزہ حیض جاری ہوجائے……
عورت روزہ سے ہواوردوپہر میں اسے حیض جاری ہوجائے تو وہ کیاکرے؟ کیا اس کا روزہ ٹوٹ گیا؟اگرٹوٹ گیا توکیا وہ کھاپی سکتی ہے؟
عورت روزہ سے ہواوردوپہر میں اسے حیض جاری ہوجائے تو وہ کیاکرے؟ کیا اس کا روزہ ٹوٹ گیا؟اگرٹوٹ گیا توکیا وہ کھاپی سکتی ہے؟
:براہ کرم وضاحت فرمائیں ،کن صورتوں میں روزہ کی قضا کی اجازت ہے؟ اور کب روزے کا فدیہ اداکیا جاسکتاہے؟
اک ڈائون میں مذہبی مقامات میں لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی ہے۔ مساجد میں پنج وقتہ اورجمعہ کی نمازیں علامتی طورپر گنتی کے چند افراد کے ذریعے ہورہی ہیں اور باقی تمام لوگ اپنے گھروں میں ہی نماز ادا کررہے ہیں ۔ماہ رمضان کی ایک خاص عبادت تراویح ہے۔ ہر مسجد میں تراویح میں کم ازکم ایک بار قرآن ختم کیاجاتا ہے۔ان حالات میں گھروں میں عموماً یہ صورت ممکن نہیں ۔پھر اس صورت حال میں گھروں میں تراویح کیسے پڑھی جائے؟
م تراویح کی بیس(۲۰) رکعت پڑھتے ہیں ۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ تراویح کی آٹھ (۸) رکعت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیشہ آٹھ رکعت ہی پڑھی ہے۔براہ کرم وضاحت فرمائیں ۔یہ بھی بتائیں کہ کیا بیس (۲۰)رکعت سے کم تراویح پڑھی جاسکتی ہے؟
موجودہ حالات میں ، جب کہ گھروں میں پنج وقتہ نمازیں ادا کی جارہی ہیں اور ماہِ رمضان میں بھی یہی حالات بنے رہنے کا امکان ہے، ایک سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ کیا تراویح کی امامت نابالغ کرسکتا ہے؟ اگر اہلِ خانہ میں سے کسی مرد کو زیادہ قرآن یاد نہ ہو اور کوئی ایسا لڑکا موجود ہو جو ابھی بالغ نہ ہوا ہو، اسے مکمل قرآن یا اس کا خاصا حصہ حفظ ہو، کیا اس کی امامت میں تراویح پڑھی جاسکتی ہے؟
اگر کوئی خاتون حافظۂقرآن ہو تو کیا وہ تراویح میں عورتوں کی امامت کرسکتی ہے؟
:آپ نے لکھا ہے کہ عورت عورتوں کی جماعت کی امامت کرسکتی ہے _، جب کہ علمائے احناف کا کہنا ہے کہ فقہ حنفی کا مفتیٰ بہ مسلک عدمِ جواز کا ہے ۔کوئی عورت حافظۂ قرآن ہو تو وہ تنہا تراویح کی نماز ادا کرتے ہوئے پورا قرآن پڑھ سکتی ہے، لیکن عورتوں کی جماعت کی امامت کرتے ہوئے قرآن نہیں سناسکتی، بلکہ عورتیں تنہا تنہا نماز پڑھیں ۔
جوں جوں ماہ رمضان المبارک قریب آرہا ہے، لوگوں کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ نمازیں گھر پر پڑھ رہے ہیں ۔ اب انھیں فکر لاحق ہورہی ہے کہ رمضان میں تراویح کا کیا ہوگا؟ اب تک وہ ہرسال تراویح مسجد میں پڑھتے تھے ۔ کوئی حافظِ قرآن خوش الحانی کے ساتھ قراء ت کرتا تھا اور وہ اس کی اقتدا میں رمضان میں کم از کم ایک مرتبہ پورا قرآن نماز میں سن لیتے تھے۔الگ سے بھی حسبِ توفیق تلاوت کرتے تھے ۔ پورا قرآن ہر ایک کو یاد نہیں ۔اب یا تو روزانہ آخری دس سورتیں دو مرتبہ پڑھ لی جائیں گی، یا جتنا قرآن یاد ہو اسی پر اکتفا کیا جائے گا ۔یوں تو تراویح میں پورا قرآن ایک مرتبہ ختم کرنا ضروری نہیں ، لیکن اب تک کے معمول پر عمل نہ کرپانے کی وجہ سے لوگوں کو محرومی کا احساس بڑھ رہا ہے اور وہ اس کی تلافی کی مختلف تدبیریں سوچ رہے ہیں ۔
اس صورت حال میں بعض حضرات دریافت کر رہے ہیں کہ اگر محلے کی مسجد میں حافظ صاحب چند لوگوں کو مائک سے تراویح پڑھائیں تو کیا اطراف کے گھروں میں ، جہاں تک مائک کی آواز جائے، ان کی اقتدا کی جاسکتی ہے؟ یا کیا کوئی ایسی صورت جائز ہے کہ کیبل ٹی وی کی طرح مسجد سے آڈیو یا ویڈیو کی شکل میں امامِ مسجد کی تلاوت نشر کی جائے اور گھروں میں لوگ ان کی اقتدا میں تراویح پڑھ لیں ؟
یہی سوال نمازِ جمعہ کے بارے میں بھی ہے۔ کیا اسے آن لائن پڑھا جا سکتا ہے کہ امام صاحب چند لوگوں کے ساتھ مسجد میں پڑھائیں اور دوسرے لوگ اپنے گھروں میں رہتے ہوئے ان کی اقتدا کرلیں ۔
اعتکاف کے بارے میں انتشارِ فکر (Confusion) کا شکار ہوں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اعتکاف ایک فضیلت والا عمل ہے ۔ اس کی فضیلت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیشہ اعتکاف کیا ہے،جب کہ بعض دوسرے حضرات اس کی فضیلت کا انکار کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اعتکاف کی فضیلت کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ اعتکاف کرنے والے بہت سے لوگ اعتکاف کے دوران میں اپنے بعض دفتری کام انجام دیتے ہیں ۔ وہ طالب علم ہیں تو کورس کی کتابیں پڑھتے ہیں ، ملٹی میڈیا والے موبائل بلاتکلف استعمال کرتے ہیں ۔ یہ کام مجھے اعتکاف کی روح کے خلاف معلوم ہوتے ہیں ۔
بہ راہ کرم اس کے بارے میں درست نقطۂ نظر کی وضاحت فرمادیجیے۔
لاک ڈاؤن میں بعض لوگ پنج وقتہ نمازیں اپنے گھروں پر پڑھ رہے ہیں ، بعض اپارٹمنٹ میں کسی خالی جگہ پر، بعض کسی احاطہ میں ۔رمضان کا آخری عشرہ شروع ہونے والا ہے۔ چنانچہ اب وہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا گھر میں یا مذکورہ مقامات پر اعتکاف کیا جاسکتا ہے؟ براہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔