کورونا کی دہشت سے روزہ نہ چھوڑیں

آج کل کورونا نامی مرض بہت پھیلا ہواہے۔کہا جاتا ہے کہ جسم میں  قوتِ مدافعت کم زور پڑجائے تو اس مرض میں  مبتلا ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے ۔روزہ رکھنے سے کچھ کم زوری لاحق ہوتی ہے ۔اس لیے کیا کورونا سے تحفظ کے ارادے سے روزہ ترک کیاجاسکتا ہے؟ براہ کرم وضاحت فرمائیں ۔

چاند دیکھ کر افطار کرنا

ایک صاحب نے چاند دیکھ کر افطار کیا، حالاں کہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا تھا، بلکہ عصر ہی کا وقت تھا۔ اگر چاند دیکھ کر روزہ رکھنا ہے اور چاند دیکھ کر افطار کرنا ہے تو پھر قرآن کی اس آیت کا حق کہاں ادا ہوا کہ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی اللَّیْلِ (اپنا روزہ رات تک پورا کرو)۔ جہاں تک روزہ رکھنے کا سوال ہے وہ ماہ رمضان کا چاند نظر آنے پر ہی رکھا جاتا ہے۔ لیکن اگر ماہ رمضان کی آخری تاریخ کو شوال کا چاند سورج غروب ہونے سے پہلے یا عصر کے وقت ہی دکھائی دے تو کیا اسی وقت افطار کرنا چاہیے، یا پھر معمول کی طرح سورج غروب ہونے کے بعد افطار کرنا چاہیے؟ بہ راہ کرم اس سلسلے میں مکمل رہ نمائی فرمائیں ۔

روزے رکھنے کی طاقت کے باوجود فدیہ دینا

یہاں کیمبل پور({ FR 2135 }) میں ایک صاحب علم نے پچھلے ماہ رمضان میں ایک فتنہ کھڑا کیا تھا کہ رمضان کے بارے میں سورۂ البقرہ کی آیات بیک وقت نازل ہوئی تھیں اس لیے اﷲ نے شروع میں جو رعایت دی ہے کہ’’جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں ،اور پھر نہ رکھیں ، تو وہ فدیہ ادا کریں ‘‘،یہ ایک اٹل رعایت ہے اور اب بھی اس سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔اس کی حمایت میں ایک آیت۱۸۳ کے آخری حصے کو پیش کیا گیا کہ اگر روزہ رکھو تو بہتر ہے اور نہ رکھو تو فدیہ ادا کردو۔ان کا کہنا تھاکہ آیت ۱۸۴پہلی آیات کے ساتھ ہی نازل ہوئی تھی،وہ پہلی آیات کی رعایت کو کیسے چھین سکتی ہے۔
آپ کی تفسیر کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ آیات۸۲ا اور۱۸۳ تو جنگ بدر سے پہلے ۲ ہجری میں نازل ہوئیں اور آیت۱۸۴ ایک سال بعد نازل ہوئی۔اگریہ بات پایہِ ثبوت کو پہنچ جائے تو پھر ان کے اس خیال کی تردید ہوسکتی ہے کہ آج بھی ایک تندرست ہٹا کٹا انسان فدیہ دے کر روزے کی فرضیت سے بچ سکتا ہے۔
مذکورہ بالا صاحب اپنے آ پ کو علم حدیث کے استاد اور قرآن کے مفسر سمجھتے ہیں اور ہر دو کے متعلق اپنے افکار وخیالات دنیا کے سامنے پیش کرچکے ہیں ۔آپ براہ مہربانی کچھ تکلیف گوارا کرکے ان کتب کا حوالہ دے دیں جن سے آپ کو ثبوت ملا ہو کہ آیات ۱۸۲ا ور۱۸۳ تو ۲ہجری میں جنگ بدر سے پہلے نازل ہوئیں اور آیت۱۸۴ ایک سال بعد نازل ہوئی۔اس طرح ہمارے پاس ایک سند ہوجائے گی اورہم انھیں اپنے فاسد خیالات کی نشرو اشاعت سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے۔یہ اسلام کی ہی خدمت ہے۔اُمید ہے کہ آپ ضرور ہمیں اپنے افکارِ عالیہ سے مستفید فرمائیں گے۔

قُطبین کے قریب مقامات میں نمازاور روزے کے اوقات

میرا ایک لڑکا ٹریننگ کے سلسلے میں انگلستان گیا ہوا ہے،آج کل وہ ایک ایسی جگہ قیام رکھتا ہے جو قطب شمالی سے بہت قریب ہے۔وہ نمازوں اور روزوں کے اوقات کے لیے ایک اُصولی ضابطہ چاہتا ہے۔بارش، بادل اور دھند کی کثرت سے وہاں سور ج بالعموم بہت کم دکھائی دیتا ہے۔کبھی دن بہت بڑے ہوتے ہیں ،کبھی بہت چھوٹے۔بعض حالات میں طلوع آفتاب اور غروب آفتاب میں بیس گھنٹے کا فصل ہو تا ہے۔ تو کیا ایسی صورت میں بیس گھنٹے یا اس سے زائد کا روزہ رکھنا ہوگا؟

اہ رمضان المبارک کو تین عشروں  میں تقسیم کیاجاتا ہے۔پہلے عشرہ کو عشرۂ رحمت، دوسرے کو عشرۂ مغفرت اور تیسرے کو عشرۂ نجات کہاجاتا ہے۔ ہر عشرہ کے اعتبار سے الگ الگ دعائیں بھی تجویز کی گئی ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ یہ تقسیم ایک حدیث پرمبنی ہے۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا یہ تقسیم درست ہے؟ وہ حدیث کس پایہ کی ہے؟ یہ بھی بتادیں ۔

کورونا کی دہشت سے روزہ نہ چھوڑیں

آج کل کورونا نامی مرض بہت پھیلا ہواہے۔کہا جاتا ہے کہ جسم میں  قوتِ مدافعت کم زور پڑجائے تو اس مرض میں  مبتلا ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے ۔روزہ رکھنے سے کچھ کم زوری لاحق ہوتی ہے ۔اس لیے کیا کورونا سے تحفظ کے ارادے سے روزہ ترک کیاجاسکتا ہے؟ براہ کرم وضاحت فرمائیں ۔

قرنطینہ میں روزہ

جولوگ کورونا پازیٹیوپائے جاتے ہیں ان کے تمام گھروالوں کو حکومتی عملہ قرنطینہ میں بھیج دیتاہے اورمسلسل ان کی نگرانی کرتاہے۔قرنطینہ میں  رہنے والی خواتین یہ جان کر پریشان ہیں کہ جوڈاکٹر ان کی نگرانی کررہے ہیں وہ انھیں آئندہ روزہ رکھنے سے منع کررہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنے سے جسمانی قوتِ مدافعت کم زورہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ کورونا سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر میں حلق تررکھاجائے۔یہ ڈاکٹر زوردے کر روزہ رکھنے سے منع کررہے ہیں ۔ایسے حالات میں یہ خواتین کیاکریں ؟