مضاربت کی صورت میں زکاۃ

اگر کاروبارکے مجموعی سرماے سے یک جا زکاۃ نکالی جائے تو شریک ثانی کو یہ اعتراض ہے کہ کاروبار کا سرمایہ صرف صاحب سرمایہ کی ملکیت ہے اور اس پر اُسے علیحدہ منافع بھی ملتا ہے، لہٰذا سرماے پر زکاۃ سرمایہ دار کو ہی دینی چاہیے۔کیا شریک ثانی کایہ اعتراض درست ہے؟

زکاۃکی شرح

جن مختلف سامانوں اور چیزوں پر زکاۃ واجب ہوتی ہے ان پر زکاۃ کس شرح سے لی جائے؟

خلفاے راشدین اور زکاۃ کی شر ح میں تبدیلی

کیا خلفاے راشدین کے زمانے میں نقدی،سکوں ،مویشیوں ،سامان تجارت، زرعی پیداوار پر زکاۃ کی شرح میں کوئی تبدیلی کی گئی ہے؟اگر ایسا ہوا تو سند کے ساتھ تفصیلی وجوہ بیان کیجیے۔

سونے اور چاندی کے نصابوں میں تناسب

تمام کتب فقہ میں مذکور ہے کہ چاندی کا نصابِ زکاۃ دو سو درہم(ساڑھے باون تولے) ہے اور سونے کا ۲۰ دینار(ساڑھے سات تولے)۔ اور علما فرماتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس چاندی اور سونا دونوں ہوں اور ہر ایک نصاب مقررہ سے کم ہو تو اس صورت میں سونے کی قیمت چاندی سے لگا کر، یا چاندی کی قیمت سونے سے لگا کر، دونوں میں سے جو صورت بھی اَنُفعُ لِلْفْقَراءِ ہو، مجموعے کو دیکھیں گے۔ یہاں تک تو بات صاف ہے۔
لیکن وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر صرف چاندی ہو تو چاندی کا نصاب ہوگا اور اگرصرف سونا ہو تو سونے کا نصاب حساب کی اساس ہوگا۔ اس بِنا پر لازم آتا ہے کہ اگر کسی کے پاس۶۰روپے ہوں تو اس پر زکاۃ عائد ہوگی مگر جس کے پاس۶تولے سونا ہے، وہ زکاۃ سے بَری ہے۔ حالاں کہ مال دار ہونے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ موجودہ نرخ کے مطابق تقریباً۵۰۰ روپے کا مالک ہے۔بہرحال علما کے فتوے شخص اوّل پر زکاۃفرض قرار دیتے ہیں اور شخص ثانی پر زکاۃ عائد ہونے کی نفی کرتے ہیں ۔ لیکن کم مال دار سے زکاۃ لینا اور زیادہ مال دار کو چھوڑدینا تعجب انگیز بات ہے۔
میں تو اپنی جگہ یہ سمجھا ہوں کہ زمانۂ قدیم میں چاندی اور سونے کی مالیت میں وہ نسبت نہ تھی جو آج کل ہے۔ آج کل تو۱:۷۵ یا۱:۸۰ کی نسبت ہے مگر دورِ نبویؐ میں تقریباً۱:۷ کی تھی۔ زکاۃ کی فرضیت میں مالیت کا اعتبارکیا گیا ہے اور۱۴۰مثقال چاندی کنوز کا بنیادی نصابِ زکاۃ ہے۔ نبی ﷺ نے زکاۃ کا نصاب متعین کرتے ہوئے اسی چاندی کی مقدار کو ذکر فرمایا۔ اس دَور میں ۱۴۰ مثقال چاندی کی مالیت کا سونا چوں کہ۲۰ مثقال (ساڑھے سات تولے) ہی بنتا تھا اس لیے یہ نصاب قرار پایا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ تاقیامِ قیامت سونے کی زکاۃ کے لیے ساڑھے سات تولے ہی مستقل نصاب متعین رہے۔ بلکہ سونے کی وہ مقدار نصابِ زکاۃ ہوگی جوساڑھے باون تولے چاندی کی ملکیت کے برابر ہو یعنی جس شخص کے پاس سونا ہو،وہ اس کی قیمت لگا کر دیکھے۔ اگر وہ ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کو پہنچ جاتی ہے،یا اس سے بڑھ جاتی ہے‘ تو اس پرزکاۃادا کرے۔
میرے اس خیال کی تائید نہ کسی فقہی کتاب کی عبارات کرتی ہیں نہ علماے وقت ہی اسے تسلیم کرنے پر آمادہ ہیں ۔اس وجہ سے مجھے اپنی راے پر اعتماد نہیں ہے۔آپ جس پہلو کو مرجح قرار دیں میرے لیے موجب اطمینان ہوگا۔

زکاۃ کی شرح میں تبدیلی

زکاۃ سے متعلق ایک صاحب نے فرمایا کہ شرح میں حالات اور زمانے کی مناسبت سے تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ حضوراکرمﷺ نے اپنے زمانے کے لحاظ سے ڈھائی فی صد شرح مناسب تصور فرمائی تھی، اب اگر اسلامی ریاست چاہے تو حالات کی مناسبت سے اُسے گھٹا یا بڑھا سکتی ہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ قرآن پاک میں زکاۃ پر جابجا گفتگوآتی ہے لیکن شرح کا کہیں ذکرنہیں کیا گیا، اگر کوئی خاص شرح لازمی ہوتی تو اُسے ضرو ربیان کیا جاتا۔ اس کے برعکس میرا دعویٰ یہ تھا کہ حضورﷺ کے احکام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہیں اور ہم ان میں تبدیلی کرنے کے مجازنہیں ہیں ۔ رہی صاحب موصوف کی دلیل، تو وہ کل یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نمازیں اتنی نہ ہوں بلکہ اتنی ہوں ، اور یوں نہ پڑھی جائیں ، یوں پڑھی جائیں جیسا کہ ان کے نزدیک حالات اور زمانے کا اقتضا ہو۔پھر تو رسول خدؐا کے احکام، احکام نہ ہوئے،کھیل ہوگئے۔ دوسری چیز جو میں نے کہی تھی،وہ یہ تھی کہ اگر اسلامی ریاست کو زیادہ ضروریات درپیش ہوں تو وہ حدیث اِنَّ فیِ الْمَالِ حَقًّا سِوَی الزَّکاۃِ({ FR 2048 }) کی رو سے مزید رقوم وصول کرسکتی ہے۔خود یہی حدیث زکاۃ کی شرح کے مستقل ہونے پر اشارتاً دلالت بھی کرتی ہے۔ اگر زکاۃ کی شرح بدلی جاسکتی تو اس حدیث کی ضرورت ہی کیا تھی؟لیکن وہ صاحب اپنے مؤقف کی صداقت پر مصر ہیں ۔براہِ کرم آپ ہی اس معاملے میں وضاحت فرمادیجیے۔

زکاۃ کے لیے مہینہ کا تقرر

زکاۃ قمری سال کے حساب سے واجب ہونی چاہیے یا شمسی سال کے حساب سے؟ کیا زکاۃ کی تشخیص اور وصولی کے لیے کوئی مہینہ مقرر ہونا چاہیے؟