تلاوت منسوخ ہونے کے باوجود حکم کا باقی ہونا
کیاقرآن کی کوئی آیت ایسی بھی ہے جو منسوخ التلاوۃ ہو مگر اُس کا حکم باقی ہو؟محدثین وفقہا نے آیت رجم کو بطور مثال پیش کیا ہے۔
کیاقرآن کی کوئی آیت ایسی بھی ہے جو منسوخ التلاوۃ ہو مگر اُس کا حکم باقی ہو؟محدثین وفقہا نے آیت رجم کو بطور مثال پیش کیا ہے۔
قرآن میں نسخ کے بارے میں آپ کی تحقیق کیا ہے؟کیا کوئی آیت مصحف میں ایسی بھی ہے جس کی تلاوت تو کی جاتی ہو مگر اس کا حکم منسوخ ہو؟
میرے ایک عزیز جو اَب لا مذہب ہو چکے ہیں ، قرآن شریف کو (معاذ اﷲ) رسول اللہﷺ کی تصنیف قرار دیتے ہیں ۔ ان کی بہت سی باتوں کو اس وجہ سے ناقابل عمل سمجھتے ہیں کہ وہ اس وقت کے لیے تھیں جب قرآن نازل ہوا۔اُمید ہے آپ جواب دیں گے۔
اسلام کو سمجھنے کی کوشش میں جس مسئلے کو میں نے سب سے زیادہ پریشان کن پایا،وہ قرآن کی تأویل وتعبیر کا مسئلہ ہے۔گزارش ہے کہ اس معاملے میں میرے ذہن کی اُلجھن کو دُور کیا جائے تاکہ تأویل قرآن کے اُصولوں کو جاننے کے ساتھ یہ بھی معلوم کرسکوں کہ مخصوص مسائل پر ان اُصولوں کا اطلاق کس طرح ہوتا ہے۔
قرآن مجید کہتا ہے: ’’وہی ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی۔اس کی کچھ آیات محکم ہیں اور وہی کتاب کی اصل وبنیاد ہیں ۔دوسری متشابہات ہیں ۔سو جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے ،وہ اس کتاب کی ان آیات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور ان کو معنی پہنائیں ۔‘‘({ FR 2232 })(آل عمران:۷)
کیا یہ صحیح ہے کہ آیاتِ محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن کے معنی صاف اور صریح ہیں ؟ اور اس بِنا پر ان کی تأویل وتعبیر کی حاجت نہیں ہے؟اگر یہی بات ہے تو کیا یہ فرض کرلیا جائے گا کہ ان کے معنی سب لوگوں پر واضح ہیں ؟اور کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سب لوگ ایک ہی طرح سوچتے ہیں اور ایک ہی درجے کا تعقل رکھتے ہیں ؟
کیا آیت لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ محکم ہے ؟اگر نہیں ہے تو چند ایسی آیتوں کی نشان دہی کیجیے جو قطعی طور پر صریح الدلالت ہیں ؟
سورۂ النساء کی تیسری آیت جس میں تعددِ ازواج کی اجازت مذکور ہے،محکم ہے یا متشابہ؟ اگر وہ محکم ہے تو اس کے معنی میں اتنا اختلاف کیوں ہے اور اس کی۱ تنی مختلف تاویلیں کیوں کی جاتی ہیں ؟
اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہو کہ تعدد ازواج والی آیت کے معنی بالکل صاف ہیں تو کیا اس کی کوئی ضرورت ہے کہ وہ حدیث کی طرف رجوع کرے؟ واضح رہے کہ میں بجاے خود تعدد ازواج کے مسئلے میں دل چسپی نہیں رکھتا،بلکہ یہاں زیر بحث قرآن کی تأویل کا مسئلہ ہے۔
جب قرآن کی مختلف آیات ایک ہی موضوع سے متعلق ہوں اور ان کا مضمون ایک دوسرے سے مختلف پایا جائے تو ایک آدمی کس طرح فیصلہ کرے کہ ان میں سے کون سی آیت کس کی ناسخ ہے؟اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ایک آیت بعد میں نازل ہوئی ہے تو کیا یہ بات اسے ناسخ قرار دینے کے لیے کافی ہے؟اگر یہ صحیح ہے تو کیا قرآن کو تاریخ نزول کی ترتیب کے لحاظ سے مرتب کرنا مفید نہ ہوگا؟
کیا ایک اسلامی ریاست میں افراد کو یہ حق ہوگا کہ ان میں سے ہر ایک آیات محکمات کے جو معنی خود سمجھتا ہو،اُن کی پیروی کرے؟کیا اُس کا یہ حق ہوگا کہ اُن آیات کی کسی ایسی تعبیر کو ماننے سے انکار کردے جو اُس کی ذاتی تعبیر سے مختلف ہو۔خواہ وہ حکومت کے مقرر کیے ہوئے کسی کمیشن ہی نے کیوں نہ کی ہو؟اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سورۂ آل عمران کی آیت نمبر ۷ کا فائدہ کیا ہے؟