کیا صرف فحش فوٹو گرافی منع ہے؟

میرے ایک فوٹو گرافر دوست کا خیال ہے کہ اسلام نے تصویر کے متعلق جو حکم امتناعی جاری کیا ہے وہ فوٹو پر عائد نہیں ہوتا،بالخصوص جب کہ فحش منظر کا فوٹو نہ لیا جائے۔کیا اس حد کو قائم رکھتے ہوئے فوٹو گرافی کو پیشہ بنایا جاسکتا ہے؟قومی لیڈروں ، جلسوں اور جلوسوں کی تصویریں لینے میں کیا حرج ہے؟

حقیقی ضرورت کی وجہ سے فوٹو کا جواز

انٹرنس کے امتحان میں پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت میں شرکت کے لیے درخواست کے ہمراہ فوٹو ارسال کرنا لازمی ہے۔ پھر کیا ایسی صورت میں فوٹو کھنچوانا جائز ہے؟مولانا مفتی کفایت اﷲصاحب سابق صدر جمعیت العلما نے اس صورت کو جائزفر مایا ہے۔میر ی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ فعل جائز کیوں کر ہو سکتا ہے؟

تصویر سے اظہارِبراء ت

ماہ جولائی۱۹۶۲ء کے ترجمان( تفہیم القرآن) میں تصویر کے مسئلے کو جس خوبی سے آپ نے کتاب و سنت کی روشنی میں حل کیا ہے ،ایمان کی بات ہے کہ ذہن مسلمان ہو تو حق بات دل میں اتر کر رہتی ہے۔ اگر واقعی تصویر حرام ہے تو پھر آپ کی تصویر اخبار میں دیکھی جائے تو بڑا رنج ہوتا ہے۔عموماًعلماے کرام تصویر کو ناجائز بتاتے ہیں مگر ان کا عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔
جواب: آپ شاید اس خیال میں ہیں کہ آج کل بھی کسی شخص کی تصویر اسی وقت اُتر سکتی ہے جب وہ خود کھنچوائے،حالاں کہ اس زمانے میں آدمی کی تصویر بالکل اسی طرح اُتاری جاتی ہے جیسے کسی شخص کو اچانک گولی مار دی جائے۔اخبارات میں میری جو تصویریں شائع ہوئی ہیں ،ان میں میری مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے۔تصویر کے بارے میں میں نے اپنا مسلک شروع سے واضح رکھا ہے۔ اگر اس کے باوجود لوگ تصویر لینے سے باز نہیں آتے تو اس کی ذمہ داری ان کی گردن پر ہے اور آپ کو مجھ سے پوچھنے کے بجاے ان سے پوچھنا چاہیے۔ (ترجمان القرآن ،ستمبر ۱۹۲۲ء)

بندوق کے شکار کی حلّت وحرمت

آپ نے ’’تفہیم القرآن‘‘ میں تکبیر پڑھ کر چھوڑی ہوئی بندوق کے مرے ہوئے شکار کو حلال لکھ کر ایک نئی بات کا اختراع کیا ہے({ FR 1427 }) جس پر مندرجہ ذیل سوالات اُٹھ رہے ہیں ۔مہربانی فرما کر جواب دے کر مشکور فرماویں ۔
۱۔ چاروں امام متفق ہیں کہ بندوق سے مرا ہوا شکار بوجہ چوٹ سے مرنے کے ناجائز اور حرام ہے، پھر آپ نے کن دلائل کی بِنا پر اس کو جائز لکھا ہے۔
۲۔ بندوق کی گولی میں دھار نہیں ہوتی بلکہ اس کی ضرب شدید سے جانور مرتا ہے۔ کارتوسوں پر عام طور پر لکھا ہوتا ہے کہ اس کی طاقت اتنے پونڈ ہے، یہ نہیں ہوتا کہ اس کی دھار اتنی تیز ہے۔ضرب سے مرا ہوا شکار قطعی ناجائزہے اور یہ مسئلہ متفق علیہ ہے۔
۳۔ ’’تفسیر حقانی‘‘ میں لکھا ہے کہ قاضی شوکانی نے بندوق کے مارے ہوئے کے حرام ہونے میں اختلاف کیا ہے لیکن قاضی صاحب کا اختلاف حجت نہیں ہوسکتا، کیوں کہ وہ مجروح احادیث بیان کرنے والا ہونے کے علاوہ اہل تشیع کی طرف میلان رکھتا ہے۔
۴۔ اس مسئلے کو فروع کہنا عوام کو دھوکا دینا ہے۔ کیا حرام کو حلال کرنا بھی فروع ہی رہے گا؟

بیمہ کا جواز وعدم جواز

انشورنس کے مسئلے میں مجھے تردد لاحق ہے،اور صحیح طور پر سمجھ میں نہیں آسکا کہ آیا بیمہ کرانا اسلامی نقطۂ نظر سے جائز ہے یا ناجائز؟اگر بیمے کا موجودہ کاروبارناجائز ہو تو پھر اسے جائز بنانے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں ۔اگر موجودہ حالات میں ہم اسے ترک کردیں تو اس کے نتیجے میں معاشرے کے افراد بہت سے فوائد سے محروم ہوجائیں گے۔دنیا بھر میں یہ کاروبار جاری ہے۔ہر قوم وسیع پیمانے پر انشورنس کی تنظیم کرچکی ہے اور اس سے مستفید ہورہی ہے۔مگر ہمارے ہاں ابھی تک اس بارے میں تأمل اور تذبذب پایا جاتا ہے۔آپ اگر اس معاملے میں صحیح صورت حال تک راہ نمائی کریں تو ممنون ہوں گا۔

انشورنس کو حرمت سے پاک کرنے کی تدابیر

انشورنس کے بارے میں آپ کا یہ خیال درست ہے کہ اس میں بنیادی تبدیلیاں ضروری ہیں ۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ اس کے لیے طویل اور مسلسل کام کی ضرورت ہے۔ میں نے اب تک اپنی انشورنس کمپنی پر لائف انشورنس کے کاروبار سے احتراز کیا ہے۔ لیکن اب غور کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ زندگی کے بیمے کی قباحتوں کو درج ذیل تدابیر سے رفع کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ زرضمانت حکومت کے پاس جمع کراتے وقت یہ ہدایت دی جاسکتی ہے کہ اس روپے کو سودی کاروبار میں لگانے کے بجاے کسی سرکاری کارخانے یا پی۔آئی۔ڈی۔ سی({ FR 1566 }) میں حصص خریدے جائیں ۔ کوشش کی جائے تو امید ہے کہ حکومت اس بات کو مان لے گی۔ اس طرح سودی کام میں اشتراک سے نجات ہوسکتی ہے۔
۲- کمپنی کو اختیار ہے کہ جس فرد کا چاہے بیمہ منسوخ کر دے یا پہلے ہی قبول نہ کرے۔ ہم قواعد میں یہ گنجائش رکھ سکتے ہیں کہ جو صاحب چاہیں اپنی رقم وارثوں میں شریعت کے مطابق تقسیم کرنے کی ہدایت کرسکتے ہیں ۔ خدا و رسول کے احکام کی شدت سے پابندی یہ شرط لگا کر بھی کی جا سکتی ہے کہ جو حضرات شرعی تقسیم پر رضامند نہ ہوں ان کا بیمہ قبول نہ کیا جائے تاکہ ہمارے ہاں وہی لوگ بیمہ کرا سکیں جو ہمارے مطلوبہ شرعی اصولوں پر چلیں ۔
۳- قمار کی آمیزش سے بچنے کے لیے بیمہ کرانے والے لوگوں کو یہ ہدایت کرنے پر آمادہ کیا جائے کہ ان کی موت کی صورت میں صرف اتنا روپیا ورثا کو دیا جائے گا جو وہ فی الحقیقت بذریعہ اقساط جمع کروا چکے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ اگرچہ بحالات موجودہ اس کاروبار میں شرکا پہلو بہت غالب ہے لیکن خیر کی صلاحیتیں بھی موجود ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل قباحتوں کی شدت محسوس کرتے ہوئے میں نے اپنی کمپنی کو فروخت کرنے کا ارادہ کرلیا تھا مگر بعد میں محسوس کیا کہ کوئی ایسی راہ نکالی جائے جس سے دوسروں کے لیے مثال قائم ہوسکے اور اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے انشورنس کا کاروبار چلایا جا سکے۔ آپ تکلیف فرما کر میری راہ نمائی فرمائیں ۔

انعامی بانڈز

آج کل حکومت کی طرف سے امدادی قرضوں کے تمسکات جو انعامی بانڈز کی شکل میں جاری کیے گئے ہیں ،ان میں شرکت کرنا اور ان پر متوقع انعام حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ قمار نہیں ۔ کیوں کہ ہر شخص کی قرض کی اصل رقم بہرحال محفوظ ہے جو بعد میں ملے گی۔اس پر کوئی متعین شرح سے اضافہ بھی بانڈز ہولڈر کو نہیں ملتا جسے سود قرار دیا جائے۔ براہِ کرم اس کاروبار کی شرعی حیثیت کو واضح کیا جائے۔کیوں کہ بہت سے لوگ اس معاملے میں خلجان کا شکار ہیں ۔

شراب والی دعوتوں میں شرکت

یہاں ({ FR 1481 }) پر دعوتوں اور پارٹیوں میں شراب کا استعما ل عام طورپر ہوتا ہے۔ایسی صورت میں ان دعوتوں میں شرکت کرنا چاہیے یا نہیں ؟ اب تک میراطرزِ عمل یہ رہا ہے کہ ایسی جگہوں پر ضرور شرکت کرتا ہوں اور شراب اور دوسری اس قسم کی چیزوں سے انکار کردیتا ہوں تاکہ کم ازکم ان کو یہ احساس تو ہوجائے کہ بعض لوگوں کو ہماری یہ مرغوب غذا ناپسند ہے۔

دعوت میں شراب پیش کرنا

اگر کوئی دعوت کچھ لوگوں کو یہاں نائیجیریا میں دی جائے تو اس میں شراب دی جاسکتی ہے یا نہیں ،کیونکہ یہاں کے لوگ بغیر شراب کے دعوت ہی نہیں سمجھتے اور اگر اس کا استعمال نہ کیا جائے تو اس کا کیا بدل دیا جائے؟

پوسٹ مارٹم کی شرعی حیثیت

اسلامی حکومت میں نعشوں کی چیر پھاڑ (post mortom) کی کیا صورت اختیار کی جائے گی؟اسلام تو لاشوں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا۔پوسٹ مارٹم دو قسم کے ہوتے ہیں :ایک (medico-legal) زیادہ تر تفتیش کے لیے، دوسرے علم الامراض کی(pathological) ضروریات کے لیے۔ ممکن ہے کہ اوّل الذکر کی کچھ زیادہ اہمیت اسلامی حکومت میں نہ ہو،لیکن مؤخر الذکر کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ اس طریقے سے امراض کی تشخیص اور طبی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔