تاریخ اور حدیث کے معیا ر میں فرق

حکیم محمود عباسی صاحب کہتے ہیں کہ تاریخ کو اسی طرح جانچنا چاہیے جس طرح حدیث کو فنِ رجال کی بنیاد پر جانچا جاتا ہے۔ وضاحت کیجیے۔

درایت کا معیار اور اُصول

درایت کا معیار کیا ہے کہ اسے سامنے رکھ کر اسناد صحیحہ رکھنے کے باوجود حدیث قوی الاسناد کو رد کردیاجائے؟نیز بتایا جائے کہ کس نص نے یہ شرط درایت اور اس کا معیار قائم کیا ہے؟

کیا کسی مسلمان کو یہ حق ہے کہ خدا و رسولﷺ کا حکم ظنِ غالب کے بموجب اسے پہنچے اور اس میں درایت کی مداخلت کرکے اس سے گریز کرے اور اپنے تفقہ کی بِنا پر اس کی مخالفت کرے،جب کہ اس کے تفقہ میں بھی خطا کا امکان ہے؟

روایت اور درایت میں ترجیح

کسی روایت کو حضور ﷺ کی طرف انتساب کرنے میں اوّل درجہ صحت روایت کو ہے یا درایت کو۔ وہ درایت جو حدیث کی صحت کی جانچ کے لیے مدار بنے،آپ کے نزدیک اس کی تعریف کیا ہے؟

صحیح البخاری کا اصح الکتب ہونا

صحیح البخاری اصح الکتب بعد کتاب اﷲ ہے۔ براہِ کرم اِس کی بھی وضاحت کردیجیے کہ اصح الکتب کا مطلب آیا یہ ہے کہ بخاری بھی قرآن کی طرح حرفاً حرفاً صحیح اور غیر محرف ہے؟

قرآن وحدیث کا باہمی تعلق

رسائل ومسائل] سوال نمبر۲۲۹ [ پیراگراف اوّل میں آپ نے لکھا ہے:
’’قرآن میں اگر کوئی حکم عموم کے انداز میں بیان ہوا ہو اور حدیث یہ بتائے کہ اس حکم عام کا اطلاق کن خاص صورتوں پر ہوگا تو یہ قرآن کے حکم کی نفی نہیں ہے بلکہ اس کی تشریح ہے۔اس تشریح کو اگر آپ قرآن کے خلاف ٹھیرا کر رد کردیں گے تو اس سے بے شمار قباحتیں پیدا ہوں گی جن کی مثالیں آپ کے سامنے پیش کروں تو آپ خود مان جائیں گے کہ فی الواقع یہ اصرار غلطی ہے۔‘‘
اگر آپ اس عبارت کے آخر میں چند مثالیں اس امر کی پیش فرماتے تو مستفسر کو مزید تشفی ہوجاتی۔ مجھے چند ایسی امثلہ کی ضرورت ہے جس سے ایک منکر حدیث مان جائے کہ ایساکرنے سے (تشریح کو قرآن کے خلاف ٹھیرانے سے) فی الواقع قباحتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ بہتر ہوگا اگر آپ چار امثلہ مہیا فرمادیں ۔
میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ حدیث قرآ ن کی وضاحت کرتی ہے مگرمیں کسی حکم کے قرآن میں نہ ہونے اور خلاف قرآن ہونے میں تمیز نہیں کرسکتا۔ازراہِ کرم آپ چار اَمْثِلہ ایسی پیش فرما دیں جس سے میرے لیے دونوں باتوں (خط کشیدہ) کا فرق پوری طرح واضح ہوجائے؟

طعام المسکین کے معنی

سورۃ الحاقہ اور سورۃ الماعون کی آیت وَلَا یَحْضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ کا ترجمہ دونوں جگہ تفہیم القرآن میں مختلف ہے۔ ایک جگہ ترجمے ’مسکین کو کھانا کھلانا‘ کیا گیا ہے اور دوسری جگہ ’مسکین کا کھانا دینا‘ ۔اس فرق کی کیا وجہ ہے؟

سحر کی حقیقت اور معوّذتین کی شان نزول

معوذتین کی شان نزول کے متعلق بعض مفسرین نے حضور ؈ پر یہودی لڑکیوں کے جادو کا اثر ہونا اور ان سورتوں کے پڑھنے سے اس کا زائل ہوجانا بحوالۂ احادیث تحریر فرمایا ہے۔یہ کہاں تک درست ہے؟نیز جادو کی حقیقت کیا ہے؟بعض اشخاص حضورعلیہ السلام پر جادو کے اثر کو منصب نبوت کے خلاف سمجھتے ہیں ؟

جنّات اور انسانوں کا دوالگ الگ گروہ ہونا

یہ بات غالباً آپ کے علم میں ہوگی کہ قرآن کے بعض نئے مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں جن وانس سے مراد دو الگ الگ قسم کی مخلوق نہیں ہے، بلکہ جنوں سے مراد دیہاتی اور انسانوں سے مراد شہری لوگ ہیں ۔ آج کل ایک کتاب’’ابلیس وآدم‘‘زیر مطالعہ ہے۔اس میں دیگر جملہ دور ازکار تاویلات سے قطع نظر ایک جگہ استدلال قابل غور معلو م ہوا۔مصنف لکھتے ہیں : ’’سورۂ الاعراف کی آیت:۷ میں بنی آدم سے کہا گیا ہے کہ رسول تم میں سے (مِنْکُمْ) آئیں گے اور سورۂ انعام کی آیت:۶ میں جن وانس کے گروہ سے کہا گیا ہے کہ رسول تم میں سے (مِنْکُمْ)آئے تھے۔ قرآن کریم میں جنات(آتشیں مخلوق) کے کسی رسول کا ذکر نہیں ۔ تمام رسولوں کے متعلق حصر سے بیان کیا ہے کہ وہ انسان بنی آدم تھے اور انسانوں میں سے مرد۔ اس لیے جب’’گروہ جن وانس‘‘سے کہا گیا کہ تم میں سے(مِنْکُمْ) رسول آئے تھے، تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ’’گروہِ جن وانس‘‘ سے مقصود بنی آدم ہی کی دو جماعتیں ہیں ۔ اس سے انسانوں سے الگ کوئی اور مخلوق مراد نہیں ہے۔‘‘ براہِ کرم واضح کریں کہ یہ استدلا ل کہاں تک صحیح ہے۔ اگر جن کوئی دوسری مخلوق ہے اور اس میں سے رسول نہیں مبعوث ہوئے تو پھر مِنْکُمْ کے خطاب میں وہ کیسے شریک ہوسکتے ہیں ؟