چور بازار سے مال خرید کرزیادہ قیمت پر بیچنا

آج کل کنٹرول کا زمانہ ہے، مگر کوئی مال دکان دار کو کنٹرول نرخ پر دستیاب نہیں ہوتا۔ وہ چور بازار (black market) سے مال خرید کر گاہکوں کو سپلائی کرتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایسے مال کو کنٹرول ریٹ پر بیچنے میں اسے خسارہ ہوتا ہے۔لامحالہ وہ زیادہ نرخ لگاتا ہے، مگر بعض لوگ اس خرید وفروخت کو بے ایمانی اور فریب قرار دیتے ہیں اورپولیس بھی اس پر گرفت کرتی ہے۔ اس باب میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

سرکاری نرخ بندی کا حکم

تسعیر یا نرخ بندی یعنی سرکاری طور پر اشیاء کی قیمتوں کو مقرر کر دینے کے سلسلے میں اسلام کی پالیسی کیا ہے۔

چونگی لینا

آڑھتی بائع اور خریدار سے کمیشن لینے کے علاوہ ایک حرکت یہ بھی کرتا ہے کہ مال کا سودا ہوجانے کے بعد اس میں سے کچھ مقدار’’چونگی‘‘ کے نام سے لے لیتا ہے۔مثلاًپھل ہوں تو ان میں سے چند دانے لے لے گا اور سبزی ہو تو اس میں اپنا حصہ لگائے گا۔اس چونگی کی حیثیت کیاہے؟

بِکر ی ٹیکس(Sales Tax) اور فرضی اندراجات

میں بزازی کا کاروبار کرتا ہوں ۔یکم اپریل۱۹۴۸ء سے ہم پر بِکری ٹیکس لگایا گیا ہے اور ہمیں اختیار دیا گیا ہے کہ یہ ٹیکس اپنے گاہکوں سے وصول کرلیں ۔لیکن عام دکان دار نہ تو گاہکوں سے یہ ٹیکس وصول کرتے ہیں اور نہ خود ادا کرتے ہیں ۔ اس سے بچنے کے لیے انھوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ اپنی روزمرہ کی اصل فروخت کا حساب وہ اپنے باقاعدہ رجسٹروں میں درج ہی نہیں کرتے۔حکومت کے کارندوں کو وہ اپنے فرضی رجسٹر دکھاتے ہیں اور جب ان کے رجسٹروں پر کسی شک کا اظہار کیا جاتا ہے تو رشوت سے منہ بند کردیتے ہیں ۔ دوسرے دکان داروں کے لیے تو یہ جعل اور رشوت آسان ہے مگر ایک ایمان دار تاجر کیا کرے؟ وہ خریداروں سے ٹیکس وصول کرتا ہے تو اس کا مال فروخت نہیں ہوتا کیوں کہ پاس ہی ایک ایسا دکان دار بیٹھا ہے جو ٹیکس لیے بغیر اس کے ہاتھ مال فروخت کرتا ہے۔ اور اگر وہ خریدار سے ٹیکس وصول نہیں کرتا تو اسے اپنے منافع میں سے یہ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔اس صورت میں بسا اوقات اسے کچھ نہیں بچتا بلکہ بعض چیزوں میں تو نفع اتنا کم ہوتا ہے کہ پورا نفع دے دینے کے بعد تاجر کو کچھ اپنی گرہ سے بھی دینا پڑ جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم تجارت چھوڑ دیں یا فرضی حسابات رکھنے شروع کردیں ؟
مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم جو صحیح حسابات رکھتے ہیں ،انھیں بھی سرکاری کارندے فرضی سمجھتے ہیں ۔ کیوں کہ جہاں ۹۹فی صدی تاجروں کے حسابات فرضی ہوں وہاں ایک فی صدی کے متعلق انھیں یقین نہیں آتا کہ اس کا حساب صحیح ہوگا۔ اس لیے وہ اپنے قاعدے کے مطابق ہماری بکری کا اندازہ بھی زیادہ لگا کر ہم سے زیادہ ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ اب کیا ہم اس سے بچنے کے لیے انھیں رشوت دیں ؟یا ایمان داری کی پاداش میں زائد ٹیکس کا جرمانہ بھی ادا کریں ؟

کھاتا اور ایمان داری

بالعموم ہر دکان دار دو قسم کے کھاتے رکھتا ہے۔ ایک تو اس کا نجی کھاتا ہوتا ہے، دوسرا سیل ٹیکس اور انکم ٹیکس کے افسران کو دکھانے کے لیے۔کیا یہ طریقہ درست ہے؟اگر نہیں تو تاجر کیا کرے؟ایک صاحب جن کا تعلق میرے بازار سے نہیں لیکن میں انھیں جانتا ہوں ،انھوں نے ایک سال کا پورا حساب انکم ٹیکس کے افسرکے سامنے پیش کیا،ایک پیسے کی بھی انھوں نے چوری نہ کی تھی۔لیکن افسر نے ٹیکس کے علاوہ مزید بھاری رقم ان پر لاد دی، اور شبہہ یہ ظاہر کیا کہ جو حساب اسے دکھایا گیا ہے،وہ صحیح نہیں ہے۔ ایسے حالات میں کیا کرنا چاہیے؟

مکانوں کے کرایوں میں بلیک مارکیٹنگ

جس مکان میں میں رہتا ہوں ،وہ مجھ سے پہلے ایک کرایہ دار نے پینتالیس روپے ماہانہ کرایے پر مالک مکان سے اس شرط پر لیا تھا کہ دو ماہ کے نوٹس پر خالی کردیں گے۔ان کرایہ دار سے یہ مکان انھی شرائط پر میرے بھائی نے لیا اور میں بھی ان کے ساتھ رہنے لگا۔ دو ماہ کے بعدمیرے کہنے پر مالک مکان میرے نام سے رسید کاٹنے لگے۔آٹھ ماہ تک برابر ہم پینتالیس روپے ماہانہ ادا کرتے رہے اور اس دوران میں کرایے کی زیادتی ہمارے لیے سخت موجب تکلیف رہی اور کئی مرتبہ ارادہ کیا کہ رینٹ کنٹرولر کے یہاں درخواست دے کر کرایہ کم کرایا جائے،مگر اس صورت پردلی اطمینان نہ ہوسکا۔ستمبر میں مالک مکان کو سفیدی وغیرہ کرانے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ تو کرایہ دار کے فرائض میں سے ہے۔ آس پاس کے لوگوں نے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی،لیکن انھوں نے اپنا سکوت توڑتے ہوئے کہا کہ دو ما ہ بعد جواب دوں گا (شاید مکان خالی کرانے کی دھمکی اس جواب میں مضمر تھی)۔اس پر کسی قدر تیز گفتگو ہوئی، جس کے نتیجے میں میں نے رینٹ کنٹرولر کے یہاں کرایہ تشخیص کرنے کی درخواست دے دی۔وہاں سے سولہ روپے گیارہ آنے ماہوار کے حساب سے کرایہ مقررکردیا گیا۔مگر میرا ضمیر اس پر اب بھی مطمئن نہیں ہے۔
جن صاحب کے ذریعے یہ مکان حاصل ہوا تھا،ان کے اور ان کے عزیروں کے کہنے سننے سے میں نے یہ صورت منظور کرلی کہ پینتیس روپے ماہوار میں اس شرط پر دوں گا کہ میں مکان میں جب تک چاہوں رہوں ،لیکن اگر کبھی مالک مکان نے مکان خالی کرایا تو پھر شروع سے کرایہ سولہ روپے گیارہ آنے کے حساب سے محسوب ہوگا اور زائد وصول شدہ رقم مالک مکان کو واپس کرنی ہوگی۔مالک مکان فی الحال اس شرط پر راضی نہیں ہے،لیکن ظاہر بات ہے کہ ان کو راضی ہونا پڑے گا۔
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے میرے لیے کون سی صورت صحیح ہوگی؟ کیا میں پینتالیس روپے ماہوار دیتا رہوں یا سولہ روپے گیارہ آنے ادا کیا کروں ؟نیز کیا میرے لیے ضروری ہے کہ جب مالک مکان مکان خالی کرنے کا مطالبہ کرے تو لازماً خالی کردوں یا اس امر واقعہ کو جانتے ہوئے کہ اسے مکان کی خود ضرورت نہیں ہے،بلکہ محض کرایہ بڑھانے کے لیے دوسرے کرایہ دار کو دینا مطلوب ہے،میرے لیے جائزہے کہ میں مطالبے کی تعمیل سے انکار کردوں ؟واضح رہے کہ مکانوں کی غیر معمولی قلت کی بنا پر پینتالیس روپے کے بجاے پچاس روپے دینے والے کرایے دار بھی مل سکتے ہیں ۔
مجھے صاف اور دو ٹو ک جواب دیا جائے۔جواب میں یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ میں مالک مکان کو نصیحت کروں یا اس کا ظلم اس پر واضح کروں ،کیوں کہ یہ چیز بے کار ہوگی۔

حکومت سے صنعتی گرانٹ کے لیے درخواست کرنا

پنجا ب انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے فیکٹری لگانے والوں کو سالانہ گرانٹ ملتی ہے،اس وجہ سے کہ گورنمنٹ انڈسٹری کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ہمارے ہاں کھڈیوں کا کارخانہ بھی ہے۔ایک دوست کا مشورہ ہے کہ ہم بھی حکومت سے گرانٹ کی درخواست کریں ۔ مگر ہمیں شک ہے کہ ارکانِ جماعت ہوتے ہوئے ہم ایسا کر سکتے ہیں یا نہیں ؟

سرکار ی نرخ پر خرید کر چور بازار میں بیچنا

ایک تاجر اپنے کاروبار میں پوری طرح راست باز اور دیانت دار ہے اور احکامِ شریعت کی پابندی کرتا ہے۔سامانِ تجارت اسے کنٹرول ریٹ پر حاصل ہوتا ہے،لیکن بازار میں چور بازاری کی وجہ سے بعض اشیا کی قیمتیں بہت چڑھی ہوئی ہیں ،اس صورت میں کیا وہ مروّجہ نرخ پر اپنا مال فروخت کرنے کا حق رکھتا ہے؟

نقد اور اُدھار کی قیمتوں میں فرق

اگر کوئی دکان دار اس اُصول پر عمل پیرا ہو کہ وہ نقد خریدنے والے گاہک سے اشیا کی کم قیمت لے اور اُدھار لینے والے سے زیادہ، توکیا وہ سود خوری کا مرتکب ہوگا؟ایک دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ فروخت پر کچھ معمولی سا کمیشن رکھا جاتا ہے،مثلاً ایک پیسا فی روپیا، اور یہ صرف نقد خریداری کی صورت میں گاہک کو اداکیاجاتا ہے ۔اس کی حیثیت کیا ہے؟