:میرے چچا کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگیا ہے۔ چچی ابھی زندہ ہیں ۔ان کی چار لڑکیاں ہیں ۔ لڑکا کوئی نہیں ہے۔ مرحوم کا ایک بھائی اوردوبہنیں بھی حیات ہیں ۔ رہائشی مکان کے علاوہ ان کی کچھ زمین جائیداد ہے اورکچھ نقدرقم بھی ۔ اسے وارثین میں کیسےتقسیم کریں گے؟ کیا بیوہ اور لڑکیوں کی موجودگی میں بھائی اوربہنوں کا بھی کچھ حصہ ہوگا؟
جواب :وراثت کے احکام قرآن مجید میں سورۂ نساء میں بیان کردیے گئے ہیں ۔ ان کے مطابق:
(۱) اگر اولاد ہوتو بیوی کوآٹھواں حصہ ملے گا۔فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ (النساء ۱۲)
(۲) اولاد میں اگر لڑکیاں ہوں اوروہ دو یا دو سے زائد ہوں تو ان کا حصہ دو تہائی ہوگا۔
فَاِنْ كُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ( ا لنساء۱۱)
(۳) وارثین میں بھائی بہن بھی ہوں تو اصحاب الفرائض (جن کے حصےمتعین ہیں ) کو دینے کے بعد جوکچھ بچے گا وہ ان کے درمیان اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ عورت کا حصہ اکہرا اور مرد کا حصہ دوہرا ہوگا۔وَاِنْ كَانُوْٓا اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّنِسَاۗءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَـيَيْنِ (النساء۱۷۶)
مذکورہ حصوں کواگر فی صد میں بیان کرنا ہوتو چاروں لڑکیوں کو۷ء۶۶فی صد (ہر لڑکی کو۷ء۱۶%ملے گا) بیوہ کو۵ء۱۲% ، بھائی کو۴ء۱۰%اور دونوں بہنوں کوبھی۴ء۱۰% ملے گا۔ (ہربہن کے حصے میں ۵ء۲%آئے گا۔)
سوال :ایک صاحب کا انتقال ہوا۔ان کے اکاؤنٹ میں دو(۲) لاکھ روپے ہیں ۔ ان کے والدین کا انتقال ہوگیا ہے۔ ایک بڑے بھائی اورچار(۴) بہنیں تھیں ۔ ان کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔ زندہ رشتے داروں میں بیوہ،چار(۴) بیٹے،تین (۳) بھانجے اورتین (۳)بھانجیاں ہیں ۔ ان پر کوئی قرض نہیں اور نہ انھوں نے کسی کے حق میں کچھ وصیت کی ہے۔ ان کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟

وراثت کے بعض مسائل

میری اہلیہ کا چند ایام قبل انتقال ہوگیا۔ ایک بیٹا اورتین بیٹیاں ہیں ۔ میرے والدین (میری اہلیہ کی ساس اورسسر)باحیات ہیں اور میری اہلیہ کے والدین بھی ہیں  اور ان کے تین بھائی بھی ہیں ۔بہ راہ کرم بتائیں  کہ ان کی میراث کیسے تقسیم ہوگی؟
یہ بھی بتائیں کہ اگر مستحقین میراث میں سے کوئی اپنا حصہ نہ لینا چاہے تو کیا اس کی اجازت ہے؟

دوبیویوں میں تقسیم وراثت

ایک شخص کی دوبیویاں ہیں ۔ ایک بیوی سے ایک لڑکا اور دولڑکیاں ہیں ، دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ۔ اس شخص کا انتقال ہوتو اس کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی؟ قرآن مجید میں کہاگیا ہے کہ اولاد ہونے کی صورت میں بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں چوتھا حصہ۔ پھر کیا دونوں بیویوں کا حصہ الگ الگ ہوگا؟ اولاد والی بیوی کو آٹھواں اور بے اولاد والی بیوی کو چوتھا حصہ دیا جائے گا؟براہِ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں ۔

شوہرکی وراثت میں بیوہ کا حق

ین برس قبل میرے شوہر کا اچانک انتقال ہو گیا۔ وہ ایک خلیجی ملک میں کام کرتے تھے۔ ان سے میرے دولڑکے ہیں ، جو ابھی بہت چھوٹے ہیں ۔ میرے والد نے دوسری جگہ میرا نکاح کر دیا۔ الحمدللہ میں خوش گوار ازدواجی زندگی گزار رہی ہوں ۔ لیکن چندباتوں سے بہت پریشان ہوں اور بڑی الجھن کا شکار ہوں ۔ براہ کرم ان کے سلسلے میں میری شرعی رہ نمائی فرمائیں ۔ میں آپ کی بہت شکر گزار ہوں گی۔
(۱) شوہر کی وفات کے بعد حکومت نے کچھ رقم دی ۔ اس میں شرعی اعتبار سے میرا اور میرے بچوں کا حصہ لگایا گیا۔ میری رقم مجھے مل گئی اور بچوں کا حصہ بینک میں فکس کردیا گیا اور بتایا گیا کہ جب بچے اٹھارہ (۱۸) برس کے ہو جائیں گے تب وہ بینک اکاؤنٹ کو آپریٹ کرسکیں گے۔ میں نے درخواست دی کہ مجھے بچوں کے تعلیمی مصارف کے لیے رقم درکار ہے۔ چنانچہ ہر برس ایک متعین رقم نکلوانے کی اجازت ملی گئی ہے۔
(۲) میرے شوہر جس کمپنی میں کام کرتے تھے ، اس کی طرف سے گریجویٹی اور دیگر ناموں سے کچھ رقم مزید ملی ۔ اس سے ایک زمین خرید کر اس پر اپارٹمنٹس بنوا دیے گئے ہیں ، جس کا کرایہ آتا ہے۔براہ کرم بتائیں کہ اس میں میرا کتنا حصہ ہے؟
(۳) مرحوم شوہر نے اپنی زندگی میں ایک فلیٹ میرے نام سے خریدا تھا اور اسے کرایے پر اٹھا دیا تھا۔وہ رقم مجھے ملتی تھی۔ میں نے بارہا اس کے بارے میں ان سے پوچھا ۔ ہمیشہ انھوں نے یہی کہا تھاکہ وہ تمھارا ہے، جس طرح چاہو،کرو۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں ۔ کیا اس فلیٹ کی ملکیت صرف میری ہے، یا اس میں مرحوم شوہر کے بچوں کا بھی حصہ ہے؟

کیا باپ زندگی میں اپنی زمین جائیداداولاد کے درمیان تقسیم کرنے میں کمی بیشی کر سکتا ہے؟

ایک صاحب اپنے ایک بیٹے سے بہت خفا ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اسے عاق کردوں گا۔ اس طرح میرے مرنے کے بعد اسے میری جائیداد میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس بیٹے نے میری زیادہ خدمت کی ہے، اسے میں زیادہ دوں گا اور دوسرے بیٹوں کو کم۔
کیا ان کا یہ کہنا درست ہے؟ کیا اسلام میں نافرمان بیٹے کو عاق کرنا جائز ہے؟ اور کیا باپ زندگی میں اپنی جائیداد بیٹوں میں تقسیم کرنا چاہے تو کیا وہ ان کے درمیان کمی بیشی کر سکتا ہے؟

وراثت کی تقسیم کب کی جائے؟

ہمارے ايک عزيز کا انتقال ہوا۔ وہ اپنے پيچھے چار لڑکے، دو لڑکياں اور بيوہ کو چھوڑ گئے ہيں ۔ تين لڑکے اور ايک لڑکي بالغ ہيں ، ايک لڑکا اور ايک لڑکي نابالغ ہيں ۔ ان ميں سے کسي کي ابھي شادي نہيں ہوئي ہے۔ وراثت کا مسئلہ درپيش ہے۔ اس سلسلے ميں براہِ کرم درج ذيل سوالات کے جوابات مرحمت فرمائيں ۔
(۱) کيا کسي شخص کے انتقال کے فوراً بعد وراثت کي تقسيم کر ديني چاہيے، يا اسے کچھ مدت کے ليے ملتوي کيا جاسکتا ہے؟
(۲) کيا يہ طے کيا جا سکتا ہے کہ پہلے تمام بچوں کي شادياں ہوجائيں ، ان ميں سب مل جل کر خرچ کريں ، بعد ميں وراثت تقسيم کي جائے؟
(۳) اگر تمام مستحقين وراثت کو مشترک رکھنا چاہتے ہيں تو کيا اس کي اجازت ہے؟ اگر نہيں تو کيا تقسيم عمل ميں آنے کے بعد وہ پراپرٹي کو مشترک رکھ سکتے ہيں ؟

وراثت میں عورت کا حصہ مرد سے زیادہ ہونے کی بعض صورتیں

(۱) میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا تقسیم وراثت میں کوئی ایسی صورت ہوسکتی ہے کہ عورت اپنے برابر رتبےوالے مرد (Male of equal rank) سے زیادہ پائے؟
بعض حضرات احکام وراثت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بعض صورتوں میں عورت کو مرد سے زیادہ ملتا ہے ، لیکن وہ یہ صراحت نہیں کرتے کہ کیا ایسا ایک رتبے(Same rank) والے مرد اورعورت کے معاملے میں بھی ہوتا ہے ۔
(۲)پروفیسر ضیاء الحسن نے اپنی کتاب ’عورتوں کا مرتبہ اوران کے حقوق‘ (ص ۸۷) میں لکھاہے:’’ کسی کسی حالت میں عورت کومرد سے زیادہ وراثت میں حصہ ملتا ہے ، جیسے کہ عورت کا انتقال ہوجائے ، جب کہ شوہر ، ماں ، دوبھائی اورایک بہن حیات ہوں ۔ ایسی صورت میں بہن کوچھٹا حصہ ملتا ہے اوربھائی کو بارہواں حصہ‘‘۔ کیا یہ صحیح ہے؟ میرے خیال میں توبھائی بہن کوبقیہ حصے میں برابر برابر ملے گا۔

باپ بیٹوں کے مشترکہ کاروبارمیں وراثت کا مسئلہ

ہمارے ایک عز یز کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہوا ہے ۔ وہ اپنے پیچھے بیوی،دو (۲) لڑکے اور چھ (۶) لڑکیاں چھوڑ گئے ہیں ۔
مرحوم کی ایک دوکان تھی ۔ انہوں نے بڑے لڑکے کواپنے ساتھ کاروبار میں شریک کرلیا ۔ دونوں نے مل کر کاروبار کوخوب ترقی دی ۔ چندسال کے بعد چھوٹا لڑکا بھی اسی کاروبار میں شریک ہوگیا۔ مرحوم نے وہ دوکان ، جسے انہوں نے کرایے پر حاصل کیا تھا ، کچھ عرصے کےبعد خریدلی اور اسے دونوں بیٹوں کے نام رجسٹر ڈ کروادیا ۔ کاروبار بھی انہوں نے دونوں بیٹوں کے درمیان تقسیم کردیا کہ بڑا بھائی ہول سیل سنبھالے گا اور چھوٹا بھائی ریٹیل ۔
باپ کے انتقال کے بعد جب تقسیم وراثت کا مسئلہ سامنے آیا تو بڑے بھائی نے کہا کہ والد صاحب نے دوکان ہمارے نام رجسٹرڈ کرادی تھی ، اس لیے وہ ہماری ہے ۔ باقی جائیداد میں وراثت تقسیم ہوگی ۔ چھوٹے بھائی کا کہنا ہے کہ والد صاحب کاروبار میں آخری وقت تک ساتھ تھے، اس لیے پوری جائیداد دوکان سمیت وراثت میں تقسیم کی جائے۔ لڑکیوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ والد صاحب نے کبھی ہمارے سامنے یہ ذکر نہیں کیا کہ دوکان صرف لڑکوں کی ہے، اس لیے اس میں ہمارا بھی حق بنتا ہے۔بہ راہِ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمائیں ۔ دوکان میں لڑکیوں کا حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟
جواب: باپ کے کاروبار میں لڑکے تعاون کریں تو اس کا مالک باپ ہی رہے گا ، الّا یہ کہ باقاعدہ پارٹنر شپ کی صراحت ہوجائے ۔ لیکن جن چیزوں کی رجسٹری باپ نے اپنی زندگی میں بیٹوں کے نام کرادی ان کے مالک بیٹے تصور کیےجائیں گے ، کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں وہ چیزیں بیٹوں کوہبہ کردیں اور ان کوانھیں کا مالک بنادیا۔باپ نے اپنی زندگی میں کاروبار بھی بیٹوں کے درمیان بانٹ دیا تو اس کے مالک بھی بیٹے سمجھے جائیں گے ۔ بقیہ جو چیزیں باپ کی ملکیت میں تھیں ، اس کے انتقال کےبعد وہ مستحقینِ وراثت میں تقسیم ہوں گی۔
سوال :میرے پاس ایک کرائے کی دوکان ہے ، جس کی تعمیر نو میرے بڑے بیٹے نے اپنے پیسوں سے کرائی اوردوکان میں کاروبار کے لیے جوسرمایہ لگا ہے وہ بھی میرے بڑے بیٹے کا ہے۔ دوکان پر میرا ایک چھوٹا بیٹا بھی بیٹھتا ہے ۔ شریعت کی نگا ہ میں دوکان کی ملکیت کس کی ہوگی؟
اسی طرح میر ے پاس ایک آبائی مکان ہے ، جس کی تعمیر بھی میرے بڑے بیٹے نے کرائی ہے ۔ میں اس مکان کو اپنے بڑے بیٹے کے علاوہ دوسرے وارثوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں ۔ کیا مجھے اس کی تعمیر میں جوخرچ ہوا ہے اس کا معاوضہ بڑے بیٹے کودینا ہوگا؟براہ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں ۔

اولاد کے درمیان مال و جائیداد کی منصفانہ تقسیم

درج ذیل مسئلے میں شریعت کی روشنی میں مشورہ درکار ہے:
میرے چھ لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں ۔ اہلیہ کا انتقال بارہ سال قبل ہوچکا ہے۔ تمام بچوں کی شادیاں ہوچکی ہیں ۔ لڑکیاں اپنے اپنے گھروں میں ہیں ۔ لڑکوں میں سے ہر ایک کی شادی کرکے میں نے اس کے لیے الگ رہائش فراہم کردی، جس میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہا ہے۔ان کے لیے الگ الگ رہائش فراہم کرنے میں آراضی کی خریداری اور مکان کی تعمیر میں ، جو سرمایہ لگا اس میں سے کچھ میرا اور کچھ لڑکوں کا کمایا ہوا تھا۔ ظاہر ہے لڑکوں کا فراہم کردہ سرمایہ برابر نہیں تھا۔ ہر ایک نے حسب ِ توفیق سرمایہ فراہم کیا، بعض نے کچھ بھی نہیں کیا۔ چھوٹے لڑکے کے لیے مکان کی تعمیر میں اس کے بھائیوں نے بھی مدد کی۔ لڑکوں نے باہمی رضا مندی سے یہ تقسیم منظور کرلی ہے۔ اب میرے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ تینوں لڑکیوں کا کیا ہو؟ ان کے حصے میں تو کچھ نہیں آیا۔ اگر آنا چاہیے تو کیا اور کس طرح ؟ واضح رہے کہ میری تھوڑی سی آبائی جائیداد وطن میں ہے، جو میرے بھائی کی تحویل میں ہے۔ ابھی اس کی تقسیم عمل میں نہیں آئی ہے۔
مسئلہ تقسیمِ وراثت کا نہیں ہے، بلکہ باہمی رضا مندی سے تقسیم اور منصفانہ تقسیم کا ہے، تاکہ بعد میں ان میں کوئی نزاع نہ پیدا ہو۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ میں اپنے مفید مشورے سے نوازیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرے تمام لڑکے اور ان کی فیملی میرا بہت خیال رکھتے ہیں ۔

زمین داری اور آباو اجداد کی میراث کی تقسیم

بڑے بھائی بتلاتے ہیں کہ اگر نوکری [نظامِ کفر کی ملازمت]حرام ہے تو زمین داری کون سی حلا ل ہے۔ ہماری زمین سرکار (ایک ریاست) نے ہمارے آبائ و اجداد کو بخشش کے طور پر دی تھی ۔وہ تو تمھارے نظریے کی رُو سے حلال آمدنی قطعاً نہیں دے سکتی۔علاوہ بریں اسلام میں زمین دارہ سسٹم سرے سے ناجائزہے۔یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے دادا نے اپنی جائداد بروے شریعت تقسیم نہیں کی تھی۔ ان کی وراثت صرف نرینہ اولاد میں چلی ہے اور مستورات کو محروم رکھا گیا ہے۔پھر نوکری کو حرام کہنے کے بعد ایسی جائدادپر کوئی شخص کیسے بسر اوقات کرسکتاہے؟