تعددِ ازواج اور لونڈیاں
حسب ذیل آیت کی تفہیم کے لیے آپ کو تکلیف دے رہا ہوں :
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۰ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ({ FR 2191 }) (النساء:۳)
دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس آیت میں چار بیویاں کرنے کی اجازت صرف اس شخص کو ہے جو یتیم لڑکیوں کا ولی ہو اور اس کو اس امر کا اندیشہ ہو کہ وہ ان لڑکیوں کے متعلق انصاف نہ کر سکے گا؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ بیویوں کے متعلق تو تعداد کی قید ہے کہ زیادہ سے زیادہ چار بیویاں کی جاسکتی ہیں ، لیکن لونڈیوں کے ساتھ تعلقات زن وشوئی قائم کرنے کے بارے میں ان کی تعداد کے متعلق کوئی تعین نہیں کیا گیا ہے۔اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ جنگ کے زمانے میں جو عورتیں پکڑی ہوئی آئیں گی، ان کی تعداد کا تعین نہیں کیا جاسکتا،اس لیے لونڈیوں سے تمتع حاصل کرنے کے متعلق بھی تعداد کا تعین نہیں کیا گیا،تو میں یہ عرض کروں گا کہ بے شک یہ صحیح ہے اور اس لحاظ سے یہ تعین بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ایک مسلمان کے حصے میں کتنی لونڈیاں آئیں گی۔ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کے حصے میں دس آئیں اور دوسرے کے حصے میں بیس۔ لیکن جہاں تک ان لونڈیوں سے تمتع کا تعلق ہے،اس کا تعین تو بہرحال ہوسکتا تھا کہ ایک شخص کے پاس لونڈیاں چاہے کتنی ہی ہوں ،وہ ان میں سے صرف ایک یا دو سے تمتع کرسکتاہے،جیسا کہ بیویوں کی صورت میں تحدید ہے۔
اس آزادی کے ہوتے ہوئے ایک شخص نہ صرف یہ کہ مال غنیمت میں حصے کے طور پر بہت سی لونڈیاں حاصل کرسکتا ہے، بلکہ وہ ان کی جتنی تعداد چاہے خرید بھی سکتا ہے۔ایسی صورت میں ایک نفس پرست سرمایہ دار کے لیے کھلا ہوا موقع ہے کہ وہ جتنی لونڈیاں چاہے خریدے اور ہوس رانی کرتا رہے۔ لونڈیوں سے بلا تعین تعداد تمتع کرنے کی کھلی ہوئی اور عام اجازت دینے کی وجہ سے معاشرے کے اندر وہی خرابی داخل ہوجاتی ہے جس کو اسلام نے زنا کہہ کر سخت سزا کا مستوجب قرار دیا ہے۔ میرے خیال میں یہی سبب تھا کہ جوں جوں مسلمانوں کی سلطنتیں وسیع ہوئیں اور ان کی دولت میں اضافہ ہوا،مسلم سوسائٹی میں رجم کی سزا کے جاری ہونے کے باوجود ہوس رانی بڑھتی گئی۔ کوئی قانون ایسا نہ تھا جو اس خرابی کاانسداد کرتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم خلفاے بنو اُمیہ اور بنوعباسیہ کے حرم میں لونڈیوں کے غول کے غول پھرتے دیکھتے ہیں اور پھر تاریخوں میں ان ذلیل سازشوں کا حال پڑھتے ہیں جو لونڈی غلاموں کے ذریعے پروان چڑھتی تھیں ۔پس میری راے یہ ہے کہ اگر لونڈیوں سے تمتع کرنے کی اجازت بھی بہ تعین تعداد ہوتی تو مسلم معاشرے میں وہ مفاسد اور نفس پرستیاں نہ پیدا ہوتیں جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ بہرحال ارشاد فرمایا جائے کہ شارع نے کن وجوہ ومصالح کی بِنا پر لونڈیوں سے تمتع کی اجازت دیتے ہوئے تعداد کا تعین نہیں کیا؟
اسی ضمن میں ایک تیسرا سوال یہ بھی ہے کہ اگر لونڈی مشرکہ ہو تو کیا اس کے ساتھ تمتع جائز ہے؟