زکوٰۃ کے سلسلے میں چند سوالات ارسال ِ خدمت ہیں ، گزارش ہے کہ ان کے تشفی بخش جواب کی زحمت فرمائیں :
(۱) کیا زکوٰۃ اپنے غریب قریبی رشتے داروں (سگے بھائی، چچا وغیرہ) کو دی جاسکتی ہے؟
(۲) کیا اپنی کل زکوٰۃ کسی ایک شخص کو دی جاسکتی ہے؟
(۳) ایک شخص خود غریب ہے، لیکن اس کی بیوی کے پاس اتنے زیور ہیں کہ اس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔ کیا ایسے شخص کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے؟
(۴) عورت سروس کرتی ہے، مال دار ہے، صاحب ِ نصاب ہے، لیکن اس کا شوہر غریب اور بے روزگار ہے۔ کیا عورت اپنی زکوٰۃ اپنے شوہر کو دے سکتی ہے؟
مفتی: مولانا محمد رضی الاسلام ندوی
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی (ولادت 1964ء) نے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے عا لمیت و فضیلت اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی یو ایم ایس اور ایم ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ وہ 1994ء سے 2011ء تک ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کے رکن رہے ہیں۔ سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ کے معاون مدیر ہیں۔ اسلامیات کے مختلف موضوعات پر ان کی تین درجن سے زائد تصانیف ہیں۔ وہ جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن اور شعبۂ اسلامی معاشرہ کے سکریٹری ہیں۔
بہ راہ کرم زکوٰۃ کے سلسلے میں چند سوالات کے جوابات سے نوازیں :
(۱) اب عموماً سرکاری ملازمین کامشاہرہ ان کے اکاؤنٹ میں پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح ہر ماہ اکاؤنٹ میں رقم آتی رہتی ہے اور حسب ِ ضرورت خرچ ہوتی رہتی ہے۔ زکوٰۃ کا حساب کیسے کیا جائے گا اور زکوٰۃ کس رقم پر دیں گے؟
(۲) اکاؤنٹ میں انٹرسٹ کی رقم بھی شامل رہتی ہے۔ کیا زکوٰۃ کا حساب کرتے وقت انٹرسٹ کی رقم کو منہا کرکے حساب کیا جائے گا؟ اگر کوئی شخص اکاؤنٹ کی کل رقم بہ شمول انٹرسٹ کے حساب سے زکوٰۃ نکال دے تو وہ گناہ گار ہوگا؟
زکوٰۃ کے درج ذیل مسائل کی براہ ِ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمایئے:
(۱) زکوٰۃ کے لیے سونے اور چاندی کا الگ الگ نصاب متعین ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس اتنی مقدار میں سونا ہو کہ نصاب تک پہنچ جائے اور اتنی مقدار میں چاندی ہو کہ نصاب تک پہنچ جائے تبھی زکوٰۃ واجب ہوگی، اگر دونوں الگ الگ اپنے نصاب سے کم ہوں تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے، جب کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر دونوں کو ملا کر ان کی مالیت کسی ایک کے نصاب کے برابر پہنچ جائے تو زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ ان میں سے کون سی بات صحیح ہے؟
(۲) ماں نے اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر ہونے والی بہو کے لیے کچھ زیورات خریدے۔ شادی زیورات کی خریداری کے ڈیڑھ سال بعد ہوئی۔ ان زیورات کی زکوٰۃ کا حساب کریں گے تو وہ کس پر واجب ہوگی؟ ماں پر یا بیٹے پر؟
(۳) ماں نے ایک خلیجی ملک سے چند سونے کے سکے خریدے اور وطن پہنچ کر انھیں بیچ کر کچھ زیورات بنوا لیے۔ جب زکوٰۃ کا حساب کریں گے تو کیا سونے کے سکوں پر بھی زکوٰۃ دینی پڑے گی؟
روزہ کے چند مسائل
(۱) کیا روزہ کی حالت میں کسی شخص کو خون دیا جاسکتا ہے؟ خون نکلوانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا یا باقی رہے گا؟
(۲) کیا روزہ کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالی جاسکتی ہے؟ اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا؟
(۳) سعودی عرب میں عموماً ایک دن پہلے رمضان المبارک کا روزہ شروع ہوتا ہے۔ ایک شخص نے رمضان کا آغاز سعودی عرب میں کیا، پھر آخری عشرہ میں وہ اپنے وطن (ہندوستان) آگیا۔ یہاں ۲۹؍ رمضان المبارک کو عید کا چاند نظر نہیں آیا۔ چنانچہ رؤیت ہلال کمیٹی نے تیسواں روزہ رکھے جانے کا اعلان کردیا۔ اس شخص کے تیس روزے ۲۹؍ رمضان ہی کو پورے ہوچکے ہیں ۔ کیا اسے تیس رمضان المبارک کو روزہ رکھنا ہوگا؟ جب کہ وہ اس کا اکتیسواں روزہ ہوگا۔
سفر میں روزہ
سفر میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے رخصت ہے، اس لیے اس سے ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ دوسری جانب آج کے دور میں سفر بڑے آرام دہ اور پرتعیش ہوگئے ہیں ۔ ذرا بھی دشواری اور پریشانی کا احساس نہیں ہوتا، بلکہ بسا اوقات سفر میں گھر سے زیادہ آرام ملتا ہے۔ اس صورت حال میں کیا یہ بہترنہ ہوگا کہ اگر رمضان میں کہیں سفر کرنا پڑ جائے تو دوران ِ سفر بھی روزہ رکھ لیا جائے؟
اعتکاف کے آداب
میں ایک مدرسہ میں کام کرتا ہوں ، مدرسہ کے ناظم ہر سال رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے ہیں ۔ ان کے ساتھ مدرسہ کے دیگر ذمہ دار اور اساتذہ بھی اعتکاف کرتے ہیں ۔ مدرسہ میں نئے سال کی تعلیم شوال سے شروع ہوتی ہے، اس لیے داخلہ فارم رمضان میں آتے ہیں ، انھیں چیک کرکے جواب دینا ہوتا ہے۔ یہ سارا دفتری کام ناظم صاحب دوران اعتکاف انجام دیتے ہیں ۔ داخلہ چاہنے والے جو لوگ آتے ہیں ان سے ملاقات بھی کرتے ہیں ۔ اس طرح ایک اعتبار سے پورا دفتر نظامت رمضان کے آخری دس دنوں میں مسجد میں منتقل ہوجاتا ہے۔ ناظم صاحب اعتکاف میں موبائل بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں ۔ اس طرح وہ باہر کے لوگوں سے برابر رابطہ میں رہتے ہیں ۔
یہ چیزیں مجھے اعتکاف کی روح کے خلاف معلوم ہوتی ہیں ۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا دوران ِ اعتکاف ان کاموں کی انجام دہی کی اجازت ہے؟
کیا عید کی نماز اگلے دن پڑھی جاسکتی ہے؟
امسال رمضان المبارک کی ۲۹؍ تاریخ کو چاند نظر آگیا اور اگلے دن عید الفطر ہونے کا اعلان کردیا گیا۔ لیکن عید کے دن صبح ہی سے زبردست بارش ہونے لگی، جو دیر تک ہوتی رہی۔ سڑکیں ، راستے اور میدان پانی سے بھر گئے۔ بالآخر عیدگاہ کے امام صاحب نے اعلان کردیا کہ آج عید کی نماز نہیں پڑھی جائے گی، اس کے بجائے کل نماز ہوگی۔ اس سلسلے میں لوگوں میں اختلاف ہوگیا اور دو گروپ بن گئے۔ کچھ لوگوں نے امام صاحب کی تائید کی، جب کہ دوسرے لوگوں نے کہا کہ عید کا دن گزر جانے کے بعد اگلے دن اس کی نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے۔
بہ راہ کرم اِس مسئلے میں صحیح بات واضح فرمائیں ۔ کیا عید کی نماز کسی عذر کی بِنا پر عید کے اگلے دن پڑھنا درست ہے؟
اگر امام دوسرا خطبہ بھول جائے
عید کی نماز کے وقت گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ نماز کے بعد بوندا باندی شروع ہوگئی۔ امام صاحب نے خطبہ شروع کیا تو نمازیوں میں بارش کی وجہ سے شور و غل ہونے لگا۔ اسی افرا تفری میں امام صاحب نے عید کا ایک ہی خطبہ پڑھا، دوسرا خطبہ پڑھنا وہ بھول گئے۔
بہ راہ کرم مطلع فرمایئے، اگر امام عید کا دوسرا خطبہ پڑھنا بھول جائے تو نماز درست ہوگی یا اس میں کچھ کمی رہ جائے گی؟
عید کی زائد تکبیرات چھوٹ جائیں تو نماز دہرانا ضروری نہیں
ہمارے یہاں عید الفطر کی نماز میں امام صاحب دوسری رکعت میں عید کی زائد تکبیرات میں سے ایک تکبیر کہنا بھول گئے اور رکوع میں چلے گئے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد مقتدیوں میں سے ایک صاحب نے ٹوکا تو انھوں نے دوبارہ عید کی نماز پڑھا دی۔
بہ راہ کرم مطلع فرمائیں ۔ اگر نماز ِ عید میں ایک تکبیر چھوٹ جائے تو کیا نماز صحیح نہیں ہوتی؟ کیا اس کی دوبارہ ادائیگی ضروری ہے؟
عید کی نماز ایک مسجد میں دو مرتبہ پڑھی جاسکتی ہے
امسال عید الفطر کے موقع پر بارش ہونے کی وجہ سے نماز عیدگاہ میں نہیں پڑھی جاسکی، بلکہ مسجدوں میں ادا کی گئی۔ نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے مسجدیں بھی تنگ پڑگئیں اور بعض مسجدوں میں دو مرتبہ عید کی نماز پڑھی گئی۔ اس موقع پر بعض لوگوں کی جانب سے یہ اعتراض سامنے آیا کہ عید کی نماز ایک مسجد میں دو مرتبہ نہیں پڑھی جاسکتی۔
بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں ۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟