امام کا محراب ِ مسجد میں کھڑا ہونا

ہمارے محلے کی مسجد میں اس بات پر تنازعہ ہوگیا کہ امام صاحب دوران ِ امامت محراب ِ مسجد میں کھڑے ہوں یا اس سے باہر؟ بعض لوگوں نے کہا کہ محراب میں امام کا کھڑا ہونا مکروہ ہے، اس لیے کہ اس میں اہل کتاب کی مشابہت ہے، جب کہ بعض دوسروں کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بہ راہ کرم واضح فرمائیں ، اس سلسلے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

مساجد میں بچوں کی حاضری

مساجد میں پنج وقتہ نمازوں کی ادائی کے لیے بڑوں کے علاوہ بچے بھی آتے ہیں ۔ ماہ رمضان المبارک میں ان کی تعداد خاصی بڑھ جاتی ہے۔ یہ بچے ہر عمر کے ہوتے ہیں ۔ کچھ بڑے تو کچھ بہت چھوٹے ہوتے ہیں ۔ دوران نماز بعض بچے شرارت کرتے ہیں ، ان کے درمیان دھکا مکی، دوڑ بھاگ اور باہم گفتگو ہوتی رہتی ہے، جس کی بنا پر مسجد کے پرسکون ماحول میں خلل واقع ہوتا ہے۔ نماز ختم ہونے کے بعد بعض لوگوں کی طرف سے بچوں پر ڈانٹ پھٹکار پڑتی ہے اور بسا اوقات ان کی پٹائی بھی کردی جاتی ہے۔ اس رویے سے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ان بچوں کے دلوں میں نماز اور مسجد سے دوری نہ پیدا ہوجائے۔ ایک چیز یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ بچے پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں ، نماز شروع ہونے کے بعد جو بڑے لوگ آتے ہیں وہ انھیں کھینچ کر اور پیچھے کردیتے ہیں ۔ کچھ لوگ چھوٹے بچوں کو بڑوں کی صفوں میں اپنے ساتھ کھڑا کرلیتے ہیں ۔ بہ راہ کرم واضح فرمائیں کہ مساجد میں بچوں کی حاضری کے سلسلے میں شریعت کیا رہ نمائی کرتی ہے؟ بچوں کو مساجد میں لانا بہتر ہے یا نہ لانا؟ کیا مسجد میں شرارت کرنے والے بچوں کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کا رویہ مناسب ہے؟ مسجد میں انھیں کہاں کھڑا کرنا چاہیے؟

چاند تارے والی چٹائیوں پر نماز

ہمارے علاقے میں اکثر مساجد میں جن چٹائیوں پر نماز ادا کی جاتی ہے ان میں چاند تارے بنے ہوتے ہیں ۔ ان پر نماز پڑھنے کی صورت میں حالت ِ سجدہ میں نماز کی پیشانی ان چاند تاروں پر پڑتی ہے۔ اس کے پیش نظر کچھ لوگ ان چٹائیوں کو الٹا کرکے چاند تاروں کو پیروں تلے رکھ کر نماز پڑھتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورج اور چاند کو سجدہ کرنے سے منع کیا ہے۔ جب کہ کچھ لوگ چٹائی الٹی کرکے اس پر نماز پڑھنے کو ناپسند کرتے ہیں ۔ آپ سے گزارش ہے کہ شرعی اعتبار سے صحیح نقطۂ نظر کی وضاحت فرمادیں ۔

نماز میں سجدۂ تلاوت

سورۃ اقرا کے اخیر میں سجدۂ تلاوت ہے۔ اگر امام نماز میں اس سورۃ کو پڑھے تو وہ سجدۂ تلاوت کس طرح کرے گا؟ وہ پہلے رکوع کرے گا یا سجدۂ تلاوت؟

فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا

فرض نمازوں کے بعد امام اور مقتدیوں کا مل کر اجتماعی دعا مانگنے کا رواج ہوگیا ہے، جب کہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے۔ عہد نبویؐ میں اس کا رواج نہیں تھا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے یہ ثابت نہیں ہے۔ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ، شریعت کی رو سے ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

کیا دعاؤں میں پیغمبر کا وسیلہ اختیار کرنا جائز نہیں ؟

ماہ نامہ زندگی نو جنوری ۲۰۱۱ میں مولانا محمد سلیمان قاسمی کا مضمون بہ عنوان ’ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں ‘ شائع ہوا ہے۔ اس میں انھوں نے ص ۲۳ پر لکھا ہے: ’ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں سے ایک اور حقیقت واضح طور پر ثابت ہو رہی ہے کہ دعاؤں میں کسی کو واسطہ اور وسیلہ نہیں بنانا چاہیے۔ کسی کو واسطہ اور وسیلہ بنانا اللہ کو اپنے سے دور سمجھنے کے مترادف ہے، حالاں کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور اپنی مخلوق پر انتہائی شفیق اور مہربان ہے۔ سب کی سنتا ہے اور بلاواسطہ اور بغیر وسیلہ سنتا ہے۔‘‘ جب کہ میں نے دوسری کتابوں میں پڑھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے وسیلے سے دعا مانگی جاسکتی ہے۔ مثلاً جناب نعیم صدیقی کی کتاب ’محسن انسانیت‘ کے صفحہ ۴ پر یہ عبارت ہے: ’وہ گورے مکھڑے والا جس کے روے زیبا کے واسطے سے ابر رحمت کی دعائیں مانگی جاتی ہیں ۔‘‘
ہر نماز میں قعدۂ اخیرہ میں ہم دعا سے قبل درود شریف پڑھتے ہیں ۔ احادیث سے بھی ثابت ہے کہ اگر دعا سے پہلے اور بعد میں درود شریف پڑھیں تو اس کی برکت سے دعا کی قبولیت یقینی ہوتی ہے۔ کیا یہ درود شریف ایک طرح کا واسطہ نہیں ہے؟
کیا دعا میں نبی کریم ﷺ کا واسطہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے، جب کہ یہ عقیدہ پختہ ہو کہ حاجت روا صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ذات ہے؟

اردو زبان میں خطبۂ جمعہ

ہماری بستی میں خطبۂ جمعہ کے معاملے نے انتشار کی صورت اختیار کرلی ہے۔ ہماری مسجد میں کچھ عرصے قبل ایک نئے مولانا صاحب آئے۔ انھوں نے جمعے کا خطبۂ اولیٰ اردو زبان میں دینا شروع کردیا۔ اس میں وہ آسان زبان میں دین کی بنیادی اور اہم باتیں بتاتے اور عوام کو وعظ و تلقین کرتے تھے۔ اس سے عام لوگوں کو بہت فائدہ محسوس ہوا۔ لیکن جلد ہی کچھ لوگوں نے مخالفت شروع کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ خطبۂ جمعہ اردو زبان میں دینا جائز نہیں ہے۔ بالآخر بستی کے سربر آوردہ لوگوں کی میٹنگ ہوئی، جس میں طے پایا کہ امام صاحب جمعہ کے دونوں خطبے تو عربی زبان ہی میں دیا کریں ، البتہ خطبے سے قبل منبر سے نیچے کھڑے ہوکر اردو زبان میں تقریر کردیا کریں ۔ اس سے عوام کی تعلیم و تربیت کی ضرورت پوری ہوجایا کرے گی۔ لیکن امام صاحب نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ ا س سے جمعہ کے خطبوں کی تعداد عملاً تین ہوجائے گی۔ نتیجتاً امام صاحب مسجد کی امامت سے علاحدہ کردیے گئے۔ بہ راہ کرم واضح فرمائیں کہ خطبۂ جمعہ کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ کیا جمعہ کا خطبۂ اولیٰ اردو زبان میں دینا شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے؟

نماز جمعہ کے چند مسائل

بہ راہِ کرم درج ذیل سوالات کی وضاحت فرمادیں :
(۱) نماز جمعہ میں کل کتنی رکعتیں ہیں ؟ کہا جاتا ہے کہ اس میں فرض اور سنن و نوافل کل ملا کر چودہ رکعتیں ہیں ؟ یہ محض رواج ہے یا اس کے پیچھے کوئی سند اور دلیل ہے؟ فقہ السنۃ شائع شدہ از مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی میں لکھا ہے کہ جمعہ میں فرض سے پہلے سنتیں اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت نہیں ہیں ، جب کہ فتاویٰ عالم گیری میں فرض سے قبل کی سنتوں کا ذکر ہے۔
(۲) کیا تین ہزار کی آبادی والے گاؤں میں تین مسجدوں میں نماز جمعہ بلا کراہت جائز ہے، جب کہ تینوں مسجدوں کا باہم فاصلہ سو، ڈیڑھ سو میٹر ہی کا ہو، اور ایک ہی مسجد میں اتنی جگہ ہو کہ پوری آبادی اس میں نماز پڑھ سکتی ہو؟
(۳) نماز کے بعد امام صاحب وظیفہ کا اہتمام کرتے ہیں اور مقتدی دعا کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں ، پھر اجتماعی طور پر دعا مانگی جاتی ہے، جب کہ قرآن میں نماز جمعہ ختم ہونے پر زمین میں پھیل کر اللہ کا فضل تلاش کرنے کی ہدایت موجود ہے۔ بہ راہِ کرم اجتماعی دعا کے جواز اور مواقع سے آگاہ فرمائیں ۔

نماز عید میں خواتین کی شرکت

یہاں ہمارے علاقے میں عیدالفطر کی نماز میں خواتین کی شرکت باعث ِ نزاع بن گئی ہے۔ چوں کہ نماز عید کے موقع پر کافی تعداد میں خواتین عیدگاہ میں نماز کے لیے آئی تھیں ، مگر یہاں کے ایک مولانا صاحب نے اس پر سخت تنقید کی۔ معاملہ صرف اتنا ہی نہیں رہا، بلکہ سنا گیا کہ انھوں نے گھر گھر جاکر خواتین کو توبہ کرنے کو کہا، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کا نماز عید میں شریک ہونا جائز نہیں ۔ اس طرح خواتین کو آئندہ عیدگاہ جانے کی اجازت نہ ملنے کا اندیشہ ہے۔ دوسری طرف کچھ علماء نماز عید میں خواتین کی شرکت کو جائز ہی نہیں ، بلکہ مستحسن قرار دیتے ہیں ۔
براہِ مہربانی اس معاملے میں رہ نمائی فرمائیں ، تاکہ آیندہ صحیح فیصلہ کیا جاسکے اور نزاع سے بھی بچا جاسکے۔