بیوی کا حق ِ سُکنیٰ
کیا بیوی اپنے شوہر سے، اس کے گھر والوں سے الگ، گھر لینے کا مطالبہ کرسکتی ہے؟ کیا شرعاً ایسا کرنا صحیح ہے؟
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی (ولادت 1964ء) نے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے عا لمیت و فضیلت اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی یو ایم ایس اور ایم ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ وہ 1994ء سے 2011ء تک ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کے رکن رہے ہیں۔ سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ کے معاون مدیر ہیں۔ اسلامیات کے مختلف موضوعات پر ان کی تین درجن سے زائد تصانیف ہیں۔ وہ جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن اور شعبۂ اسلامی معاشرہ کے سکریٹری ہیں۔
کیا بیوی اپنے شوہر سے، اس کے گھر والوں سے الگ، گھر لینے کا مطالبہ کرسکتی ہے؟ کیا شرعاً ایسا کرنا صحیح ہے؟
کچھ لوگ عورتوں کی ملازمت کے بارے میں اعتراض کرتے ہیں کہ جو رقم تنخواہ کے طور پر عورت حاصل کرتی ہے وہ مرد پر حرام ہے۔ بہ راہ کرم اس بارے میں وضاحت فرمائیں ؟
ایک اہم مسئلہ درپیش ہے۔ گزارش ہے کہ اس سلسلے میں صحیح رہ نمائی فرمائیں ۔ ایک صاحب کی شادی کو تین ماہ سے کچھ زائد ہوئے ہیں ۔ شادی کے بعد لڑکی ایک دن سسرال میں گزار کر میکے چلی گئی۔ وہاں سے ٹھیک پندرہ دن بعد جب وہ دوبارہ سسرال آئی تو اس کے طرزِ عمل سے معلوم ہوا کہ اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے اور وہ نفسیاتی مریضہ ہے۔ اس صورت حال میں کیا کیا جائے؟
(الف) کیا یہ رشتہ باقی رہنے دیا جائے؟ جب کہ لڑکی کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے اور لڑکا نارمل ہے۔
(ب) اگر طلاق کی نوبت آجائے تو کیا لڑکی کو صرف مہر کے ساتھ رخصت کیا جائے؟ یا مہر کے ساتھ دوسری چیزیں (جیسے جائیداد، مکان وغیرہ) بھی واپس کردی جائیں ؟
(ج) لڑکی والوں کی طرف سے دھوکہ دیا گیا ہے۔ یعنی انھوں نے اس بات کو قطعی صیغۂ راز میں رکھا کہ لڑکی ابنارمل (Abnormal)ہے۔ ایسی صورت میں کیا پنچایت کے ذریعے ان پر تاوان (Penalty) عائد کیا جاسکتا ہے؟
آپ سے استدعا ہے کہ مذکورہ سوالات کے جوابات کتاب و سنت کی روشنی میں عنایت فرمائیں ۔
ایک نجی مسئلہ میں شرعی رہ نمائی کی غرض سے رجوع کر رہا ہوں ۔ میرے دن نہایت کرب میں گزر رہے ہیں ، اس لیے درخواست ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو، مجھے رہ نمائی سے نوازیں ۔ میری شادی کو کچھ ہی عرصہ ہوا ہے، جس سے ایک اولاد ہے۔ میری بیوی پہلے کسی اور سے محبت کرتی تھی، مگر شادی مجھ سے ہوگئی۔ اس نے اپنے سابقہ تعلقات کو مجھ سے چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ شروع ہی سے وہ میرے سامنے اس شخص کی مبالغہ آمیز تعریف اور اس سے تعلق ِ خاطر کا اظہار کرتی رہی ہے۔ بیوی کی ذاتی کتابوں اور ڈائریوں میں میں نے مخصوص انداز میں مذکورہ شخص کا نام، پتہ اور فون نمبر وغیرہ لکھا ہوا پایا ہے۔ مزید برآں دوران سفر اس سے ایسی حرکتوں کا صدور ہوتا ہے (جیسے اجنبی مردوں سے نظریں ملانا، ان سے بلاتکلف باتیں کرنا وغیرہ) جو مجھے قطعاً پسند نہیں ہیں ۔ ان حالات میں میری نظر میں بیوی کا کردار مشکوک ہوگیا ہے۔ میں سخت ذہنی الجھن اور پریشانی میں ہوں ۔ میری زندگی میرے لیے بوجھ اور مصیبت بنی ہوئی ہے۔ کیا میں بیوی کے بارے میں شک کرنے میں حق بہ جانب ہوں ؟ کیا ایسی صورت میں میرے لیے طلاق دینا جائز ہے؟ اگر طلاق دوں تو اس کی وجہ کیا بتاؤں ؟ طلاق کی صورت میں غیرشرعی عدالت کے ذریعے مجھ سے ناروا مطالبات (مال جائیداد وغیرہ) کیے جائیں گے۔ کیا آخرت میں مجھے ان کا بدل ملے گا؟ ان حالات میں بیوی کے ساتھ نباہ کرنا کیا صبر ہے، جس پر میں عند اللہ ماجور ہوں گا؟ یا بے غیرتی ہے، جسے کسی شریف آدمی کو ہرگز برداشت نہیں کرنا چاہیے؟ ان سوالات سے میں ذہنی طور پر از حد پریشان ہوں ۔ بہ راہ کرم میرے مسائل کا شریعت کی روشنی میں حل تجویز فرمائیں ۔
میں فوج میں ملازمت کر رہا ہوں ۔ میرے بہت سے ساتھی غیرمسلم ہیں ، وہ وقتاً فوقتاً اسلام پر اعتراض کرتے رہتے ہیں ۔ ایک موقعے پر ایک صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ ’’اسلام میں بیوی کو طلاق دینے کے بعد اسے واپس لینے کے لیے حلالہ کرانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہ تو طوائف گیری جیسا کام ہوا۔‘‘ میں نے انھیں جواب دینے کی کوشش کی لیکن اس جواب سے وہ مطمئن نہ ہوسکے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس اعتراض کا اطمینان بخش جواب مرحمت فرمائیں ۔ یہ اعتراض عموماً غیرمسلموں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔
کیا شوہر کی وفات کے بعد عورت کے لیے دورانِ عدت سونے یا چاندی کے زیورات، جیسے چوڑی، بندے، انگوٹھی اور سونے کی زنجیر (Chain)والی گھڑی کا استعمال جائز ہے یا ناجائز؟ زیور کے علاوہ اس کو سرمہ لگانے اور سر میں تیل ڈالنے کی اجازت ہے یا نہیں ؟ اسے کیسا لباس پہننا چاہیے؟
ہمارے علاقے میں ایک عجیب طرح کا مسئلہ پیش آیا۔ ایک صاحب نے کسی بات پر ناراض ہوکر اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ ’’تم میرے لیے حضرت فاطمہؓ کے برابر ہو۔‘‘ بعد میں وہ پشیمان ہوئے۔ مقامی علماء سے مسئلہ معلوم کیا۔ بعض علماء کی یہ رائے سامنے آئی کہ اس جملے سے ظہار ثابت ہوگیا۔ اب بیوی اس شخص پر حرام ہوگئی۔ظہار کا مسئلہ قرآن میں سورۂ مجادلہ کے شروع میں بیان ہوا ہے۔ میں نے بعض کتب ِ تفسیر سے رجوع کیا، لیکن مسئلہ منقح ہوکر میرے سامنے نہ آسکا۔ تفہیم القرآن میں مولانا مودودیؒ نے اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ لیکن انھوں نے اس سلسلے میں فقہاء کے اختلافات بیان کردیے ہیں ۔ اپنی طرف سے کوئی قطعی بات نہیں لکھی ہے۔ میری نظر میں ظہار میں صرف خونی رشتے ماں ، بہن، بیٹی ، خالہ، پھوپھی وغیرہ یا رضاعت کے رشتے ہی آتے ہیں ۔ اس میں عام عورتوں کو بھی شامل کرنا نصِّ قرآن کے خلاف ہے۔ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا صورت مسئولہ میں ظہار ثابت ہوگیا؟
کہاجاتا ہے کہ قرآن میں پردے کے تناظر میں برقعہ پہننے کا صریح حکم موجود نہیں ہے۔ اس لیے صرف اوڑھنی سے سر اور چہرے کا پردہ کرنا اور ساتھ ہی جہاں تک ہوسکے جسم کا ڈھکنا کافی ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتاہے کہ چوں کہ ہمارے یہاں کے مخصوص حالات کی وجہ سے تلاشی کے دوران برقعہ والی خواتین کا برقعہ ہٹا کر تلاشی لی جاتی ہے اس لیے بھی برقعہ نہ پہننا بہتر ہے۔
جہاں تک میرا علم ہے، برقعہ اوڑھنا اسلامی شعار ہے اور برقعہ یا حجاب کا صریح حکم قرآن میں ڈھونڈنا ناروا ہے۔ جب کہ سنت سے حجاب کی اہمیت اور فرضیت واضح ہے۔
دو پٹے، اوڑھنی یا چادر سے سر، چہرے اور جسم کو ڈھانکنا میرے خیال میں ناکافی ہی نہیں ، بلکہ دعوت ِ نظارہ کے مترادف ہے۔ چوں کہ عموماً ہم لوگ باہر نکلتے وقت اہتمام سے نئے، خوش رنگ اور نظر کو بھلے لگنے والے کپڑے زیب تن کرتے ہیں ، ساتھ ہی عورتیں عام استعمال کے کپڑے بھی فیشن کو ملحوظ رکھ کر خریدتی ہیں ۔ اس لیے اس طرح کے کپڑوں کو پردہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے؟ جہاں تک تلاشی کے دوران تنگ کیے جانے کا سوال ہے تو میرے خیال میں اس وجہ سے حجاب ترک کرنا بھی گناہ ہے۔ اسے ہم اضطراری حالت تو نہیں کہہ سکتے۔ بھلے ہی انسان دل کو مطمئن کرنے کے لیے کتنے بھی بہانے بنالے، ویسے بھی پردہ دار خواتین کے ساتھ بلاوجہ زیادتی کوئی بھی غیرمسلم، چاہے وہ پولیس والا ہو یا فوجی، نہیں کرتا۔ الا احیاناً۔
یونیورسٹی، آفسوں اور خصوصاً ہسپتالوں میں لڑکے اور لڑکیاں سارا سارا دن گفتگو اور ہنسنے مسکرانے میں گزار دیتے ہیں ۔ سمجھانے یا منع کرنے پر کہا جاتا ہے کہ ہم تو اسلام کے بارے میں Discussکرتے ہیں ۔ یہ کون سا اسلام ہے، جس پر اجنبی اور غیرمحرم مرد و زن بے پردگی اور عریانیت کے ساتھ مل کر Discussکرسکتے ہیں ۔ ایک توحرام کام اور پھر اس پر ’’اسلام پر "Discussکرکے ثواب بھی کمایا جارہاہے۔
یہ حالات سخت ذہنی کوفت کاسبب ہیں ، لیکن ہماری بات اس لیے اثر نہیں کرتی کہ ہم دینی تعلیم تو برائے نام بھی کسی مدرسے سے حاصل نہیں کرپائے، صرف مروجہ تعلیم کے ساتھ گھر پر والدین کی توجہ سے تھوڑا سا دین کا علم ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ مذکورہ بالا امور پر خصوصی توجہ سے ہماری رہ نمائی فرمایئے۔ شاید کہ کسی پر اثر ہو۔
پردہ کے بارے میں کچھ احکام سوال و جواب کی صورت میں بیان کیے گئے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک اور سوال ذہن میں ابھرا کہ جو عورتیں ملازمت پیشہ ہیں ان کے لیے پردہ کا التزام کرنا اکثر ناممکن ہوتا ہے۔ کیوں کہ دفتروں میں ان کے کام ہی ایسے ہوتے ہیں جہاں ہر وقت ان کے لیے پردہ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ مثلاً جو خواتین پولیس میں بھرتی ہوتی ہیں ان کو چوبیس گھنٹے کھڑے کھڑے ڈیوٹی دینی پڑتی ہے؟
آپ نے پردہ کے تعلق سے جو اظہار ِ خیال فرمایا ہے وہ قطعی غلط ہے۔ حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ تفہیم القرآن جلد چہارم میں سورۂ احزاب کی تفسیر فرماتے ہوئے مذکورہ بالا غلط تعبیر کی تردید فرماتے ہیں ۔ جلد چہارمص: ۱۲۹ پر جو سیر حاصل بحث مولانا نے فرمائی ہے اس کو پیش نظر رکھیے اور اپنا جواب ملاحظہ فرمائیے تو حقیقت کا علم ہوگا۔ پتہ نہیں ، کیوں ؟ جماعت اسلامی کے علما اس طرح کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے ارکان و کارکنان ہی نہیں ، بلکہ جماعت سے دور کا تعلق اور حسن ِ ظن رکھنے والوں کے ہاں باستر مکمل مع چہرہ کے ڈھانپنے والے برقع کا چلن ہے، بلکہ سخت پابندی کے ساتھ ہے۔ پھر آپ کا طرز ِ عمل کس طرح کے برقع کے استعمال کا ہے؟ یعنی آپ اپنے اہلِ خاندان اور اہلیہ محترمہ کو مروجہ طرز کا برقع استعمال کرواتے ہیں یا پھر اسی طرح کا، جس کا اظہار آپ نے اپنے اس جواب میں دیا ہے؟