بعض احادیث کی تحقیق(۱)

ایک حدیث یہ بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ ہر عمل کے اللہ تعالیٰ کے یہاں پہنچنے کے لیے درمیان میں حجاب ہوتا ہے ، مگر لا الہ الا اللہ اورباپ کی دعا بیٹے کے لیے۔ ان دونوں کے لیے کوئی حجاب نہیں ‘‘۔
بہ راہِ کرم واضح فرمائیں کہ یہ حدیث کیا درجہ اورمقام رکھتی ہے؟ کیا اسلام میں صرف لڑکے ہی خصوصیت واہمیت رکھتے ہیں اوربھلائیوں اوررحمتوں کےمستحق ہیں ؟ لڑکیوں کی کوئی حیثیت واہمیت ؟ اگر باپ اپنی بیٹیوں کے لئےدُعا کرے تو کیا بہ راہِ راست اللہ تک نہیں پہنچتی؟ پھر اسلام کے متعلق یہ دعویٰ کیا مقام رکھتا ہے کہ اس نے عورت اورمرد کو برابر کا مقام عطا کیا ۔
امید ہے ، اس اشکال کا ازالہ فرمانے کی زحمت گوارا کریں گے۔

یک حدیث پڑھی ،جس میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زکام کا علاج کرنے سے منع فرمایا ہے اوراس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس سے جذام کی بیماری دور ہوتی ہے۔ حدیث نقل کرنے والے نے آگے لکھا ہے کہ حکما حضرات بھی زکام کا فوری علاج بہتر نہیں سمجھتے ، بلکہ کچھ دنوں کے بعد علاج کرنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔
براہِ کرم بتائیں ، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟اور ا س کے مطابق زکام کا فوراً علاج نہیں کرنا چاہیے۔

ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ ایک لڑکی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:’’ اے اللہ کے رسول! میرےباپ نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے طے کردیا ہے ، جب کہ مجھے یہ رشتہ منظور نہیں ہے ۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگرتم کویہ رشتہ منظور نہیں تو تمہارا نکاح نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ تب وہ لڑکی فوراً بول پڑی :’’ اے اللہ کے رسول !مجھے یہ رشتہ منظور ہے ۔ میں تو صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اسلام میں عورتوں کے کیا حقوق دیے گئے ہیں ؟‘‘
یہ حدیث کس کتاب میں مروی ہے ؟ اور سند کے اعتبار سے اس کی کیا حیثیت ہے؟ براہِ کرم وضاحت فرمادیں ۔

اہ رمضان المبارک کو تین عشروں  میں تقسیم کیاجاتا ہے۔پہلے عشرہ کو عشرۂ رحمت، دوسرے کو عشرۂ مغفرت اور تیسرے کو عشرۂ نجات کہاجاتا ہے۔ ہر عشرہ کے اعتبار سے الگ الگ دعائیں بھی تجویز کی گئی ہیں ۔ کہاجاتا ہے کہ یہ تقسیم ایک حدیث پرمبنی ہے۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا یہ تقسیم درست ہے؟ وہ حدیث کس پایہ کی ہے؟ یہ بھی بتادیں ۔

رسول اللہﷺ کے بچپن کے بعض واقعات

جناب مائل خیرآبادی نے بچوں کے لیے ایک کتاب’ بڑوں کا بچپن‘کے نام سے لکھی ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے دو واقعات بیان کیے ہیں : پہلا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ کسی لڑکے سے آپؐ کو معلوم ہوا کہ شہر میں ناچ گانے کی محفل لگتی ہے اورلوگ کھیل تماشوں سے دل بہلاتے ہیں ۔ آپ ؐ کے دل میں انہیں دیکھنے کا شوق ہوا ، لیکن اللہ تعالیٰ کویہ منظور تھا کہ آپؐ بچپن میں بھی پاک صاف اورنیک رہیں ۔ چنانچہ آپ جاتےجاتے راستے میں کسی کام سے رک گئے اور پھر نیند آگئی ۔ آپ سو گئے اورصبح تک سوتے رہے ۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ خانۂ کعبہ کی دیوار گرگئی۔ مکہ کے لوگوں نے مل جل کر اسے اُٹھانا شروع کیا ۔ اُٹھانے والوں میں آپ ؐ اورآپ کے چچا عباسؓ بھی شامل تھے۔ عباسؓ نے آپ کا کندھا۔ چھلا ہوا دیکھا تو آپؐ کا تہہ بندکھول کر آپ کے کندھے پررکھ دیا ۔ آپ ؐ مارے شرم کے بے ہوش ہوکر گرپڑے ۔ تھوڑی دیر میں ہوش آیا تو آپ کے منہ پر تھا۔ ’’میرا تہبند ، میرا تہبند ‘‘ جب آپ کا تہہ بند باندھ دیا گیا تو آپ ؐ کا دل ٹھکانے ہوا ۔
ان دونوں واقعات کے سلسلے میں بعض حضرات نے سخت اعتراض کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ان واقعات سے اللہ کے رسول ﷺ کی توہین ہوتی ہے ۔ یہ واقعات ثابت نہیں ہیں ۔ اس لیے انہیں مذکورہ کتاب سے نکال دینا چاہیے۔بہ راہِ کرم اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیں ۔ کیا یہ دونوں واقعات غیر مستند ہیں ؟

رضاعی ماں  سے رسول اللہ ﷺ کی بے توجہی؟

ضرت حلیمہ سعدیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں تھیں ۔ انہوں نے آپ کوبچپن میں دودھ پلایا تھا ۔ کتبِ سیرت میں نہیں ملتا کہ آپؐ نے کبھی ان سے ملاقات کے لیے سفر کیا ہو۔ نہ نبی بنائے جانے سے پہلے نہ نبی بنائے جانے کے بعد ۔ اسلام میں رشتوں کا پاس و لحاظ رکھنے کی بڑی تاکید آئی ہے ۔ اس سلسلے میں خود آپ ؐ کے بہت سے ارشادات ہیں ۔ پھر خود آپ نے اس کاعملی مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟بہ راہ ِ کرم اس اشکال کو دور فرمادیں ۔

ذکرِ رسول ﷺ میں احتیاط

میں ایک مسجد میں امامت اور خطابت کے فرائض انجام دیتا ہوں ۔ ربیع الاوّل کے مہینے میں میں نے ایک موقع پر اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ پرروشنی ڈالی ۔ میں نے بیان کیا کہ مکی دور میں مشرکین نے آپ ؐ کوطرح طرح سے ستایا اور تکلیفیں پہنچائیں ، یہاں تک کہ آپؐ کی جان کے بھی درپے ہوئے۔ میرے پیش نظر سورۃ الانفال کی یہ آیت تھی:
وَاِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِيُثْبِتُوْكَ اَوْ يَقْتُلُوْكَ اَوْ يُخْرِجُوْكَ۝۰ۭ وَيَمْكُـرُوْنَ وَيَمْكُرُ اللہُ۝۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِـرِيْنَ
(الانفال۳۰)
’’ وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب کہ منکرین حق تیرے خلاف تدبیر یں سوچ رہے تھے کہ تجھے قیدکردیں یا قتل کرڈالیں یا جلا وطن کردیں ۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اوراللہ اپنی چال چل رہا تھا اوراللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔
دورانِ تقریر میں نے ایک جملہ یہ بھی کہہ دیا کہ کفارِ مکہ چاہتے تھے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ نماز کے بعد ایک صاحب نے مجھے ٹوکا کہ ایسے جملے نہ استعمال کیجئے۔ اس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوتی ہے ، جوکسی مسلمان کے لیے زیبا نہیں ہے۔
بہِ راہِ کرم وضاحت فرمائیں ، کیا اس جملے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا پہلو نکلتا ہے؟

بے سند اقوال

ادبی کتابوں میں کئی مقولے اورعبارتیں باربار نظرآتی ہیں 
(۱) الشعراء تلامیذ الرحمٰن (شعرا رحمٰن کے شاگرد ہیں ۔)
(۲) یجوزللشعراء ما لایجوزلغیرھم(شعرا کے لیے وہ کچھ جائز ہے جو دوسروں کے لیے جائز نہیں  ہے۔)
(۳) وللہ خزائن تحت عرشہ ومفاتیھاألسنۃ الشعراء(اللہ کے عرش کے نیچے خزانے ہیں اور ان کی کنجیاں شعرا کی زبانیں  ہیں ۔)
بہ راہِ کرم یہ بتانے کی زحمت فرمائیں کہ کیا یہ احادیث کے ٹکڑے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو پوری حدیثیں کیا ہیں اوران کی سند ی حیثیت کیا ہے؟اگر یہ لوگوں کے اقوال ہیں تو ان حضرات کا مبلغ علم کیا ہے؟

حضرت عمرؓ کے بیٹے کو شراب نوشی کی سزا

ایک واعظ صاحب نے مسجد میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ حضرت عمرؓ کے ایک بیٹے نے شراب پی۔ حضرت عمرؓ نے اس پر حد جاری کی، یہاں تک کہ وہ مرگیا۔ اس کی جاں کنی کے وقت حضرت عمرؓ نے اس سے فرمایا ’’ بیٹا !اپنے رب سے ملاقات کے وقت کہنا کہ میرا باپ حد جاری کرنے میں پیچھے نہیں ہے ۔‘‘کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟ براہِ کرم وضاحت فرمادیں ۔