صدقہ کے طورپر جانور ذبح کرنا

میرے چچا بہت بیمار تھے۔ انھوں نے صدقہ کے طورپر بکراذبح کرنا چاہا ، لیکن لوگوں نے انھیں ایسا کرنے سے منع کیا اور کہا کہ جان کے بدلے جان نہیں لینا چاہیے۔ اگر آپ بیماری کی وجہ سے صدقہ کرنا چاہتے ہیں تو مال صدقہ کردیں ۔ بعض لوگوں  نے کہا کہ جان کے بدلے جان لینے کا تصور ہندومذہب میں  پایا جاتا ہے ، اسلام میں  یہ چیز جائز نہیں ہے۔ اس بنا پر یہ معاملہ الجھ گیا ہے اورہمارے خاندان کے لوگ کنفیوژن کاشکارہوگئے ہیں ۔
بہ راہ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں ۔ کیا مذکورہ صورت میں صدقہ کے طورپر جانور ذبح کرنا شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے؟

مرض سے شفایابی پرقربانی

ایک سوال کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ ’’عام حالات میں حلال جانوروں کو ذبح کرکے ان کا گوشت کھایا جاسکتا ہے اور بہ طورصدقہ اسے تقسیم کیا جاسکتا ہے ‘‘ پھر اس سے یہ استنباط کیا ہے کہ ’’ کسی مناسبت سے، مثلاً مرض سے شفایابی پرجانور ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کیاجاسکتا ہے۔‘‘ یہ بات صحیح نہیں  معلوم ہوتی ۔
جانور ذبح کرکے اسے کھانے یا ذبح شدہ جانور کے گوشت کوبہ طور صدقہ تقسیم کرنے میں کوئی کلام نہیں ، البتہ سوال یہ ہے کہ کسی مناسبت سے جانور کوبہ طور تقرب یابہ غرض ثواب ذبح کرنا درست ہے یا نہیں ؟ جیسا کہ یہ عام رواج بنتاجا رہاہے کہ کوئی شخص کسی جان لیوا حادثے سے بچ گیا تو اس کے بعد قربت کی نیت سے وہ جانور ذبح کرتا ہے اورخون بہانے کو کارثواب سمجھتا ہے اوراسے جان کی حفاظت کا بدلہ قراردیتا ہے۔
جہاں  تک مجھے معلوم ہے کہ بہ غرضِ ثواب جانور ذبح کرنا صرف دو موقعوں پر ثابت ہے: ایک عید قرباں میں ، دوسرے عقیقہ میں ۔ الّا یہ کہ دیگر اعمال صالحہ کی طرح کوئی شخص جانور ذبح کرنے کی نذرمان لے تو بہ حیثیت نذر درست ہے، کیوں کہ کسی بھی عمل صالح کوبہ شکل نذر اپنے ذمے لازم کرنا اور اسے ادا کرنا کتاب وسنت سے ثابت ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور موقع پربہ طور تقرب جانور ذبح کرنا ثابت نہیں  ہے اور تعبّدی امور میں قیا س درست نہیں ۔

مجلس کے آداب

اجتماعات میں ہمارے بعض ساتھی دیر سے پہنچتے ہیں ۔ کوئی شخص دیر سے پہنچے تووہ خاموشی سے بیٹھ جائے یاسلام کرکے بیٹھے ؟ اگروہ سلام کرے تو کیا مجلس کے کسی ایک فرد کی طرف سے سلام کا جواب دے دینا کافی ہے؟
اسی طرح اگرکبھی کوئی شخص تنہا قرآن کی تلاوت کررہا ہویا کسی دینی کتاب کا مطالعہ کررہا ہو اور دوسرا شخص وہاں آکر اس کو سلام کرے توکیا اس کے لیے سلام کا جواب دینا ضروری ہے؟
یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ کیا کسی مجلس میں بیٹھے ہوئے شخص کے لیے انگلیاں چٹخانے کی ممانعت احادیث میں آئی ہے ؟

چوری چھپے غیر قانونی تجارت

بہت سارے حضرات بیرونی ممالک سے اپنے ساتھ اتنا سونا (Gold) لاتے ہیں ، جتنی مقدار میں لانے کی حکومت اجازت نہیں دیتی۔ اگر اجازت ہوتو بھی اس کے لوازمات ہوتے ہیں اور اس کا ٹیکس ایئرپورٹ پر ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔ بعض لوگ کسی نہ کسی طرح چھپ چھپاکر لاتے ہیں ، پھر اس کو فروخت کرتے ہیں ، جس سے انہیں کافی فائدہ ہوتا ہے۔ کیا حکومت کو دھوکہ دے کر لائے ہوئے سونے کی خریدوفروخت کی جاسکتی ہے؟ جب ایسے لوگوں سے اس طرح کی ناصحانہ بات کی جائے کہ ایسا کرنا غلط ہے تو وہ فوراً کہہ دیتے ہیں کہ اگر ہم سونے کے تعلق سے کسٹم حکام کو اطلاع دیں تو ہمیں ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی ہے، یا ان کو رشوت دینی پڑتی ہے، جس کی وجہ سے ہمیں منافع نہیں ہوپاتا، اس لیے ہم چھپاکر لاتے ہیں ۔ اس طریقے سے جو چیزیں لائی جائیں ، کیا ان کی تجارت صحیح ہے؟ کیا حکومتِ وقت کو دھوکہ دے کر تجارت کی جاسکتی ہے؟ایسی کمائی حلال، حرام یا مشتبہ ہوگی ؟ بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں ۔ بڑی نوازش ہوگی۔

امانت میں خیانت

ایک صاحب نے مجھے پچاس ہزار روپے یہ کہہ کر دیے کہ اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کردوں ۔ ہوایہ کہ مجھے کچھ روپیوں کی بہت سخت ضرورت پیش آگئی۔ چنانچہ میں نے اس میں سے بیس ہزار روپے استعمال کرلیے اور سوچاکہ جب میرے پاس پیسوں کاانتظام ہوجائے گا تو اس رقم کو بھی ضرورت مندوں میں تقسیم کردوں گا۔ ذاتی استعمال کے لیے میں نےان صاحب سے اجازت حاصل نہیں کی، بلکہ ان کو بتائے بغیر بہ طور قرض اسے استعمال کرلیا۔ کیامیرے لیے ایسا کرنے کی گنجائش تھی یا میں نے غلط کیا؟

مشکوک آمدنی پر قطع تعلق

مرکز قومی بحث میں رقم لگانا کیسا ہے ؟ طریق کار یہ ہے کہ لوگ اپنے پیسے جمع کراتے ہیں اورایک لاکھ پر ۱۰۰۰؍۱۱۰۰ روپے ماہانہ کے حساب سے منافع وصول کرتے ہیں اور رقم بھی محفوظ رہتی ہے ۔
میرے کئی جاننے والے ہیں جنہوں نے اپنی رقم قومی بچت کے مرکز میں رکھی ہے ۔ اکثر آسودہ حال ہیں ۔ذاتی مکان ہے ، ۵۰ ہزار روپے ماہانہ پنشن بھی ملتی ہے ۔ مکان کا ایک حصہ کرایے پر بھی دے رکھاہے۔ خرچ برائے نام ہے ۔ میں نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی ایسے شخص کے گھر سے جس کی رقم مرکز قومی بچت میں لگی ہو اورمجھے پتا چل جائے تومیں اس کے گھر سے پانی پینا بھی اپنے لیے ناجائز سمجھتا ہوں ، البتہ گھروالوں کو اس بارے میں منع نہیں کیا ہے اورکہا ہے کہ جومہمان آئے اس کی مناسب خاطر تواضع کی جائے ، البتہ وہ میرے گھر میں کوئی چیز نہ لائے ۔
کیا میرا یہ فیصلہ درست ہے ؟ دین اسلام کی روشنی میں ایسا کرنا کیسا ہے؟ کئی علماء جوازکا بھی فتویٰ دیتے ہیں اورکچھ کہتے ہیں کہ جب حکومت دیتی ہے تو ہم کیوں نہ لیں ؟ بڑے بڑےپڑھے لکھے لوگ ایسا کرتے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں ۔ میری اُلجھن دور فرمادیں ۔

معاملہ کی شفافیت

ایک معاملہ آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں اور اس سلسلے میں آپ سے رہ نمائی کا طالب ہوں ۔ بہ راہِ کرم پورے معاملے پر غور کرکے مجھے صحیح رہ نمائی فرمائیں ۔ شکر گزار ہوں گا۔
مجھے کچھ عرصہ قبل اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے اورالحمد اللہ اہلِ خاندان سے میرے تعلقات خوش گوار ہیں ، اگر چہ ابھی انہیں قبولِ اسلام کی توفیق نہیں ہوئی ہے ۔
میرے والد صاحب نے ایک قطعۂ اراضی فروخت کیا اورمجھ سے خواہش کی کہ اسے کہیں اِنوسٹ (invest)کرادوں ، تاکہ اس سے آمدنی ہوتی رہے ۔ میں نے اپنے بعـض قریبی دوستوں سے مشورہ کیا ۔ انہوں نے ایک دینی جماعت کے چند سرکردہ افراد کی نشان دہی کی، جوزمین کا کاروبار کرتے ہیں ۔ میں نے ان میں سے ایک صاحب سے رابطہ کیا اوران سے درج ذیل شرائط پر معاملہ طے ہوگیا:
۱- میں انوسٹمنٹ(Investment) کے لیے پندرہ لاکھ روپے دوں گا۔
۲- ادائیگی چیک، نقد اورڈیمانڈ ڈرافٹ کے ذریعے ہوگی۔
۳- اس معاملہ کوضبط تحریر میں لایا جائے گا ، جس پر دونوں فریقوں کے دستخط ہوں گے۔
۴- یہ معاملہ صرف ایک سال کے لیے ہوگا۔ اسے آئندہ بھی جاری رکھنے کے لیے ازسر نو معاہدہ ہوگا۔
۵- ایک برس مکمل ہونے کے بعد اصل سرمایہ پر ۲۸ سے ۳۳ فی صد کے درمیان منافع دیا جائے گا۔
میں نے مذکورہ رقم ان صاحب کے ذریعے بنائے گئے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردی۔ ساتھ ہی اس معاہدہ کوتحریری شکل دی اور اس پر ان سے دستخط کرنے کا مطالبہ کیا ۔ یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا اورکئی بار کی یاد دہانی کے باوجود تیار شدہ دستاویز پر دستخط نہیں کیےگئے ، یہاں تک کہ گیارہ مہینے گزرگئے ۔تب میں نے اطلاع دی کہ میں اس معاہدہ کومزید جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہوں ، ایک برس پورا ہوتے ہی میری رقم منافع کے ساتھ واپس کردی جائے ۔ میری بات سنی ان سنی کردی گئی۔ ای میل کے ذریعے بار بار ریمائنڈر بھیجنے کے نتیجے میں مدتِ معاہدہ مکمل ہونے کے دو ماہ بعد میری رقم بغیر منافع کے واپس کی گئی ۔ میں نے منافع کا مطالبہ کیا تو جواب دیا گیا کہ کوئی منافع نہیں ہوا ۔ میں نے یاد دلایا کہ آپ نےتو ۲۸ سے ۳۳ فی صد کے درمیان منافع کا وعدہ کیا تھا ۔ اس کا یہ جواب دیا گیا کہ فریق ثانی کومنافع کی امید دلانے کے لیے ایسا کہہ دیا جاتا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ مراد نہیں ہوتا، منافع صفر بھی ہوسکتا ہے اورتجارت میں گھاٹا بھی ہوسکتا ہے ۔
فریق ثانی کی یہ بد معاملگی میرے لیے تکلیف دہ ہے ۔ میرے والد ، جنہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا ہے ، اس رویّے سے بہت نالاں ہیں ۔ ان تک ’اچھے مسلمانوں ‘ کی کیسی تصویر پہنچی ہے ؟ کیا میں ان لوگوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کرنے میں حق بہ جانب ہوں ؟

کسی معاملہ میں تنازعہ کا حل

دو افراد کے درمیان ایک قطعہ اراضی کا سودا ہوا۔ قیمت تین قسطوں میں ادا کی جانی تھی ۔ دو قسطیں ادا کردی گئیں ، صرف ایک قسط کی ادائیگی باقی تھی۔ اچانک خریدار نے آخری قسط ادا کرنے سے انکار کردیا اورکہا کہ اس نے زمین کی خریداری کا معاملہ نہیں کیا تھا ، اس نے تو رقم بہ طور قرض دی تھی ۔ بیچنے والے نے کہا کہ معاملہ قرض کا نہیں ، بلکہ خرید وفروخت کا تھا، پھر میں تو موصولہ رقم خرچ کرچکاہوں ۔ اب جب زمین کسی اور کوفروخت ہوگی تبھی سابق خریدار کورقم واپس کرنا ممکن ہے ۔ اس معاملے کوایک سال ہوگئے ہیں ۔ رقم دینے والااپنی رقم واپس مانگ رہا ہے اور زمین کا مالک کہہ رہا ہے کہ جب زمین فروخت ہوگی تب ہی رقم واپس کرسکوں گا ۔ اس معاملہ کوکیسے رفع دفع کیا جائے؟

حِجامۃ کے ذریعے علاج

ہمارے یہاں ایک مسلم ڈاکٹر ایم بی بی ایس ہیں ۔ وہ حِجامۃ کے طریقۂ علاج کو اندھی تقلید کہتے ہیں ،جب کہ اس علاج کے تعلق سے طب نبویؐ میں کافی احادیث مذکور ہیں ۔ آج کے دور میں ہر بیماری کے لیے کئی طریقہ ہائے علاج موجود ہیں ۔ اس کے باوجود حِجامۃ کے ذریعے علاج کرانا کیا جائزہے؟