گائے کا گوشت کھانے کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر

ہمارے یہاں ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے ، جس میں ایک مولانا صاحب بتاتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گائے کاگوشت کھانے سے منع کیا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ممانعت کی یہ حدیث کئی کتابوں میں درج ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ گائے عرب میں نہیں پائی جاتی تھی ، اس لیے اللہ کے رسول ؐ اورصحابۂ کرام نے کبھی گائے کا گوشت نہیں کھایا ۔ مولانا صاحب یہ بھی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں گائے کھانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے اوراسے لازم نہیں قرار دیا گیا ہے ، اس صورتِ حال میں جب کہ کسی قوم کے جذبات مجروح ہوتے ہوں ، گائے کا گوشت کھانے پر مسلمانو ں کا اصرار کرنا درست نہیں ہے۔
براہِ کرم اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں اوربتائیں کہ کیا واقعی احادیث میں گائے کا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے ؟

نزولِ وحی کی ابتدا کازمانہ

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ،نئی دہلی سے بچوں کے لیے ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس کےمصنف جناب عرفان خلیلی ہیں ۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر غارِ حرا میں نزولِ وحی کا آغاز ماہِ ربیع الاوّل میں ہوا ۔ہم نے اب تک پڑھا اور سنا ہے کہ ایسا ماہ رمضان المبارک میں ہوا تھا۔
بہ راہِ کرم رہ نمائی فرمائیں ، کیا صحیح ہے؟

آد م علیہ السلام کاظلم

نافرمانی کی روک تھام کے لیے سزا کی ضرورت اورانتباہ سے کسی کوانکار نہیں ، مگر سزا سے بچنے کے لیے سزا کی نوعیت سمجھ سے بالاتر نہ ہو، ورنہ سزاکی نوعیت کاابہام نافرمانی کی طرف جھکاؤ کومہمیز کرسکتاہے۔
بائبل میں ہے کہ آدم علیہ السلام کو ممنوعہ درخت سے دورر کھنے کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی کہ جب وہ ممنوعہ پھل کھائیں گے تو یقینی طورپر موت سے دوچار ہوں گے۔ اس سزا میں ابہام ہے۔ آدم علیہ السلام موت سے اس وقت ڈریں گے جب انھیں اس کی سختی کاتجربہ ہویاوہ موت کے مناظر دیکھ چکے ہوں ۔ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام موت کے مفہوم سے بہ خوبی واقف تھے۔
قرآن میں سزا یوں بتائی گئی ہے:
فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ (البقرۃ۳۵:)
’’ورنہ تم دونوں ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘
اورتوبہ کی دعا میں آدم علیہ السلام یوں کہتے ہیں :
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا (الاعراف: ۲۳ )
’’اے ہمارے رب !ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ ظلم اورظالم جیسے تصورات سے حضرت آدم علیہ السلام کب اور کس طرح واقف ہوئے؟ اوراس کے عواقب کا مؤثر ادراک انھیں کیسے حاصل ہوا؟ کیاعلم الاسماء میں ان تصورات کو داخل سمجھا جائے؟

غار میں اصحابِ کہف کے قیام کی مدت

قرآن مجید وہ واحد کتاب ہے جس میں کسی غلطی کا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا، لیکن بشر کے کلام میں غلطی اور سہو کے احتمال سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ترجمۂ قرآن ومختصر حواشی میں سورہ ٔ کہف کی آیت ۲۵کا یہ ترجمہ کیا ہے :’’ اوروہ اپنے غارمیں تین سوسال رہے اور (کچھ لوگ مدت کے شمارمیں ) ۹سال اور بڑھ گئے ہیں ‘‘لیکن انہوں نے آیت ۲۱پر یہ فٹ نوٹ لکھا ہے:
’’یعنی جب وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے شہر گیاتو دنیا بدل چکی تھی ۔بت پرست روم کو عیسائی ہوئے ایک مدت گزر چکی تھی۔ زبان ، تہذیب ، تمدن، لباس، ہرچیز میں نمایاں فرق آگیاتھا۔ دوسو برس پہلے کا یہ آدمی اپنی سج دھج ، لباس ، زبان، ہرچیز کے اعتبار سے فوراً ایک تماشا بن گیا اور جب اس نے پرانے زمانے کا سکہ کھانا خریدنے کے لیے پیش کیا تو دوکان دار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ شخص توان پیروانِ مسیح میں سے ہے جو دوسو برس پہلے اپنا ایمان بچانے کے لیے بھاگ نکلے تھے۔ یہ خبر آنا فاناً شہر کی عیسائی آبادی میں پھیل گئی اور حکام کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پر پہنچ گیا ۔ اب جواصحابِ کہف خبردار ہوگئے کہ وہ دوسو برس بعد سو کر اٹھے ہیں تووہ اپنے عیسائی بھائیوں کو سلام کرکے لیٹ گئے اور ان کی روح پرواز کرگئی ‘‘۔ (ترجمۂ قرآن مع مختصر حواشی، سورہ ٔکہف ،حاشیہ ۵)
قرآن مجید واضح طورسے بیان کررہاہے کہ ’’وہ اپنے غار میں تین سوسال رہے ‘‘، لیکن مولانا مودودیؒ مذکورہ فٹ نوٹ میں بار بار ’دوسوسال ‘ کہتے ہیں ۔یہ ان سے چوک ہوگئی ہے ۔ یہ غلطی بشر ہونے کی صاف دلیل ہے ، لیکن اس تسامح سے مولانا مودودی کی عظمت ، بزرگی اور جلالتِ شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مولانا مودودی مرحوم ہمیں بتاگئے ہیں کہ ’’تنقید سے بالا تر کوئی نہیں اورپیغمبروں کے علاوہ کوئی معصوم عن الخطا نہیں ۔‘‘ مولانا صلاح الدین یوسف نے لکھا ہے کہ جمہور مفسرین کے نزدیک ’’وہ اپنے غارمیں تین سوسال رہے ‘‘ اللہ کا قول ہے ، یہ انسانوں کا قول نہیں ہے۔‘‘ میرا معروضہ یہ ہے کہ ہم جمہور مفسرین کی بات مانیں گے یا مولانا موددی کی ؟‘‘

لفظ ’قلب ‘ اوراس کے مترادفات میں فرق

قرآن کریم میں تین الفاظ آئے ہیں : قلب، فؤاد، صدر۔ عام طور پر مترجمین تینوں کا ترجمہ ’دل ‘ سے کرتے ہیں ۔ کیا ان کے درمیان کچھ فرق ہے یا یہ ہم معنی ہیں ؟

قرآن مجید میں  آیات ِ سجدہ

قرآن مجید میں  اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم پندرہ(۱۵) مقامات پرسجدہ کریں ۔ پھر ہم صرف چودہ(۱۴) مقامات پرسجدہ کیوں کرتے ہیں ؟ ایک مقام پرسجدہ کیوں چھوڑدیتے ہیں ؟ کیا ایک امام کی پیروی اللہ اوراس کے رسول کی پیروی سے بڑھ کر ہے؟ براہِ کرم سنن ابی داؤد کی یہ حدیث (نمبر ۱۴۰۲) ملاحظہ کیجیے۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:کیا سورئہ حج میں دوسجدے ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا:’’ ہاں  اورجس نے ان آیتوں پرسجدہ نہیں کیا، اس نے گویا ان کی تلاوت ہی نہیں کی۔‘‘

سورۃ النجم کا زمانۂ نزول

سورۂ نجم کے زمانۂ نزول کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے کہ یہ سورہ سنہ پانچ نبوی میں نازل ہوئی ہے ۔ اس کی دلیل کے طورپر مولا نا نے مختلف روایتیں نقل کی ہیں ۔ سورہ کے دیباچہ میں تاریخی پس منظر بھی زمانۂ نزول کی روایتوں کوتقویت بخشتا ہے ۔
اس سورہ میں دومرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات کا ذکرہے۔ پہلی ملاقات پہلے نزول وحی کے وقت (آیات ۷تا۱۰) اور دوسری ملاقات سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہوئی تھی (آیات ۱۳تا ۱۸)۔ ظاہر ہے ، سدرہ کے پاس حضور کی موجودگی سفر معراج کے واقعہ کا حصہ ہے ، جس کا زمانہ معتبر روایات کی روٗ سے ہجرتِ مدینہ سے ایک سال قبل سنہ ۱۲ نبوی کا ہے ۔ پھر سورۂ نجم میں سفر معراج میں پیش آنے والے ایک واقعہ کاذکر کیوں کر ہوسکتا ہے ؟ جب کہ وہ واقعہ ابھی پیش ہی نہیں آیا۔
کیا سورۂ نجم کے زمانۂ نزول کی کوئی اورروایت یا تحقیق ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہوکہ وہ ہجرتِ مدینہ سے قریب نازل ہوئی تھی ؟ یاواقعہ معراج کوابتدائی دورِ نبوت میں مانا جائے؟
بہ راہ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں ۔

جان کنی کے وقت سورۂ یٰسٓ کی تلاوت

سورۂ یٰسٓ کوقرآن کا دل کہا جاتا ہے۔ کیا یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے؟
جان کنی کے وقت سورۂ یٰسٓ کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جان نکلنے کے بعد مردے کے پاس بھی اس کی تلاوت کی جانی چاہیے۔
اس سلسلے میں رہ نمائی فرمائیے ۔ کیا یہ باتیں احادیث سے ثابت ہیں ؟

بعض احادیث کی تحقیق

سود کی ممانعت کے موضوع پر ایک حدیث بیان کی جاتی ہے :
عَنْ اَبی ہُرَیرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حُوْباً اَیْسَرُہَا اَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہٗ
(رواہ ابن ماجہ والبیہقی فی شعب الایمان )
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ سود کی شناعت ستر درجہ بڑھی ہوئی ہے اس کے مقابلے میں کہ آدمی اپنی ماں سے بدکاری کرے ۔‘‘
اس تمثیل پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں درج ذیل بیانات کی روشنی میں غور کیجئے:
۱- آپؐ استنجا کرتے وقت زمین کے قریب بیٹھ کر کپڑا ہٹاتے تھے۔
۲- آپؐ کا چرواہا ، جوبارہ سال کی عمر کا لڑکا تھا ، ایک مرتبہ بکریاں چرانے کے دوران بغیر کپڑے کے سورہا تھا ۔ اس حرکت کی وجہ سے آپ ؐ نے اسے برخواست کردیا ۔
۳- احادیث میں ہے کہ آپؐ نے نہ اپنی کسی زوجہ کی شرم گاہ کودیکھا نہ کسی زوجہ نے آپ کی شرم گاہ کودیکھا۔
۴- حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ تنہائی میں بلا ضرورت بغیر کپڑے پہنے رہنا مناسب نہیں ۔ اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ۔
۵- زنا کے قریب جانے کی حرکت ہی نہیں ، بلکہ گفتگو سے بھی سخت منع کیا گیا ہے ۔
۶- نگاہ کی خرابی کوزنا کی پہلی سیڑھی قرار دیا گیا ہے ۔
۷- زانی کے لیے کوڑے اورسنگ ساری کی سزا ہے ۔
۸- فحش باتیں پھیلانے والوں کو فوج داری سزا دی گئی ہے (واقعۂ افک )
۹- جماع کے وقت بھی کپڑے پوری طرح ہٹانے سے منع کیا گیا ہے ۔
عریانیت اورزنا کے تعلق سے اتنی حساس تعلیمات دینے والی ہستی کیوں کر ایسی تمثیل بیان کرسکتی ہے جومذکورہ بالا حدیث میں مذکور ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ اس حدیث کورد کردیا جائے ، صرف اتنی درخواست ہے کہ اس کے سلسلے میں توقف اختیار کیا جائے اور اس کو مت بیان جائے ، تاآں کہ سند اور درایت کے لحاظ سے اس کی تحقیق کرلی جائے ۔

گدھا- رسول اللہ ﷺکی سواری؟

مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع شدہ جناب طالب ہاشمی کی کتاب ’خیر البشر کے چالیس جاں نثار ‘ میں حضرت معاذ بن جبل ؓ کے تذکرہ میں ایک جگہ ان کے حوالے سے لکھا ہوا ہے :’’ میں ایک دن گدھے پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوارتھا اور آپؐ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا ۔‘‘ (ص۳۰۷:) یہ بات بڑی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے ۔ گدھا چھوٹے قد اورمعمولی قسم کا جانورہے ۔ اس پر سواری کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ اس کی جسامت اتنی مختصر ہوتی ہے کہ دو اشخاص اس پر سوارہی نہیں ہوسکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گدھے کی سواری زیب نہیں دیتی اورآپؐ کے پیچھے ایک صحابی کا بیٹھنا عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔
مجھے سنہ۲۰۱۱ء میں حج کی سعادت نصیب ہوئی اورتقریباً پینتالیس دنوں تک سعودی عرب میں میرا قیام رہا ۔ اس عرصہ میں مکہ معظمہ ، منیٰ ، عرفات اور مدینہ منورہ وغیر جانا ہوا ۔ پورے سفر میں کہیں بھی مجھے گدھا نظر نہیں آیا ۔کہیں ایسا تونہیں ہے کہ مصنف نے انگریزی الفاظ ASSیا DONKEY کا ترجمہ ’گدھا ‘ کردیا ہو ، جب کہ ان الفاظ کا اطلاق خچر پر بھی ہوتا ہے ۔ جسمانی ساخت میں خچر گھوڑے سے کم تر، لیکن اس کی نسل سے ہوتا ہے ۔ اسے سواری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، جب کہ گدھے کوکہیں سوار ی کے لیے نہیں استعمال کیا جاتا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس طرح کے جملوں کا استعمال بے ادبی محسوس ہوتی ہے ۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایسے جملے خارج کردیے جائیں ۔