اختلافی مسائل پر اُمت سازی کا فتنہ

مجھے مذہبی تنازع اور تفرقے سے فطری بُعد ہے اور وہ تمام جزوی مسائل جن میں اختلاف کی گنجائش خود شریعت میں موجود ہے، ان میں اختلاف کو جائز رکھتا ہوں ۔ اسی طرح اگر نبی ﷺ سے کسی معاملے میں دو یا تین طریقہ ہاے عمل ثابت ہوں تو ان سب کو جائز اور سنت کی حدکے اندر شمار کرتا ہوں ۔مثلاً نماز میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا میرے نزدیک دونوں برابر ہیں ۔چنانچہ میں ان دونوں صورتوں پر عمل کرلیتا ہوں ،کبھی اِس پر اور کبھی اُس پر۔مجھے اپنے اس مسلک پر پورا پورا اطمینان ہے اور میں نے سوچ سمجھ کر اِسے اختیار کیا ہے۔ اپنے اطمینان کے لیے وضاحت مطلوب ہے۔
جواب

اُصولی حیثیت سے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شرعی مسائل میں کسی شخص یاگروہ کا کسی خاص طریق تحقیق واستنباط یا کسی مخصوص مذہب فقہی کی پیروی کرنا اورچیز ہے اور اس کا اپنے خاص طریقے یا مذہب کے لیے متعصب ہونا اور اس کی بِنا پر جتھا بندی کرنا اور اس سے مختلف مذہب رکھنے والوں سے مغایرت ومنافرت برتنا اور اس کی پابندی ترک کرنے والوں کو اس طرح ملامت کرنا کہ گویا ان کے دین میں کوئی نقص آگیا ہے ،بالکل ایک دوسری چیز ہے۔پہلی چیز کے لیے تو شریعت میں پوری گنجائش ہے، بلکہ خود صحابہ وتابعین ؇ کے طرزِ عمل سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے اور دین میں اس سے کوئی خرابی رونما نہیں ہوتی۔ لیکن دوسری چیز بعینہٖ وہ تفرق فی الدین ہے جس کی قرآن میں مذمت کی گئی ہے، اور اس تفرق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ لوگ فقہی مسائل ہی کو اصل دین سمجھ بیٹھتے ہیں ، پھر ان مسائل میں ذرا ذرا سے اختلاف پر ان کے درمیان الگ الگ اُمتیں بنتی ہیں ،پھر ان فروعی بحثوں میں وہ اس قدر اُلجھتے اور ایک دوسرے سے بے گانہ ہوجاتے ہیں کہ ان کے لیے امت ِ مسلمہ کی زندگی کے اصل مقصد(یعنی اعلاے کلمۃ اﷲ)اور اقامت ِ دین کی خاطر مل کر جدوجہد کرنا غیر ممکن ہوجاتا ہے۔
مسلکِ فقہی کے اعتبار سے کسی کا طریقِ اہل حدیث یا طریقِ حنفی یاطریقِ شافعی وغیرہ پر چلنا بجاے خود کسی قباحت کا موجب نہیں ہے۔لیکن اگر یہ چیزآگے بڑھ کر یہ صورت اختیار کرلے کہ مسلمان فی الحقیقت ایک اُمت نہ رہیں ،بلکہ اہل حدیث، احناف، شوافع وغیرہ ناموں کے ساتھ الگ الگ مستقل اُمتیں بن جائیں ، اور شرعی اعمال کی جو خاص صورتیں ان مختلف گروہوں نے اختیار کی ہیں ،وہ ہر ایک گروہ کے مخصوص شعائر قرارپاجائیں جن کی بِنا پر ان گروہوں میں مغایرت اور امتیاز واقع ہو، تو پھر یقیناً یہ دین کو ٹکڑے ٹکڑ ے کرنا ہے، اور میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ دین ِ اسلام میں اس تقسیم اور تعصب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔رفع یدین کرنا یا نہ کرنا،آمین زور سے کہنا یا آہستہ کہنا، اور ایسے ہی دوسرے اُمور صرف اسی وقت تک شرعی اعمال ہیں جب تک کوئی شخص ان کے ترک یا فعل کو اس بِنا پر اختیا رکرے کہ اس کی تحقیق میں صاحبِشریعتؐ سے ایسا ہی ثابت ہے یا یہ کہ ایسا کرنا دلائل شرعیہ کی بِنا پر ارجح اور اَولیٰ ہے۔ مگر جب یہی اعمال کسی مخصوص فرقے کے شعار بن جائیں اور ان کا ترک یا فعل وہ علامت قرار پائے جس کی بِنا پر یہ فیصلہ کیا جانے لگے کہ آپ کس فرقے میں داخل اور کس سے خارج ہیں اور پھر انھی علامتوں کے لحاظ سے یہ طے ہونے لگے کہ کون اپنا ہے اور کون غیر،تو اس صورت میں رفع یدین کرنا اور نہ کرنا، یا آمین زور سے کہنا، یا آہستہ کہنا یا ایسے ہی دوسرے اُمور کا ترک اور فعل دونوں یکساں بدعت ہیں ۔ اس لیے کہ سنت رسول اﷲ میں بجاے خود تو ان اعمال کا ثبوت ملتا ہے ،لیکن اس بات کاکوئی ثبوت نہیں ملتا ہے کہ ان اعمال کو مسلمانوں کے اندر گروہ بندیوں اور فرقہ سازیوں کے لیے علامات اور شعائر بنایا جائے۔ایسا کرنا دراصل حدیث کا نام لے کر صاحبِ حدیث ؈ کے منشا کے بالکل برعکس کام کرنا ہے اور اس اصل کام کو غارت کرنا ہے جس کے لیے نبیﷺ دنیا میں تشریف لائے تھے۔ (ترجمان القرآن ، جولائی،اگست ۱۹۴۵ء)