ادائیگیِ زکوٰۃ کے لیے رمضان کاانتظارضروری نہیں

عموماً لوگ ماہ رمضان میں  زکوٰۃ نکالتے ہیں ۔یہاں  تک کہ اگر کسی کے مال پرچھ ماہ قبل ہی سال پوراہوگیاہوتو بھی وہ رمضان کاانتظارکرتاہے۔شایداس کے پیچھے یہ ذہنیت کام کرتی ہے کہ رمضان میں ہر عمل کا زیادہ ثواب ملتا ہے، لیکن مجھے خیال ہوتاہے کہ کہیں ایسا کرنے سے زکوٰۃ فرض ہونے کے بعد اس کی ادائی میں تاخیرکاگناہ لازم نہ آتاہو۔براہ کرم واضح فرمائیں ، کیا زکوٰۃ اداکرنے کے لیے رمضان کاانتظارکرنا درست ہے؟کیا زکوٰۃ فرض  ہوتے ہی فوراً اس کی ادائیگی ضروری نہیں ؟
جواب

مال دار مسلمان،جن پر زکوٰۃ فرض ہے اوروہ فرض جانتے ہوئے اسے نکالنے کااہتمام کرتے ہیں ،ان کا یہ معمول بن گیا ہے کہ وہ ہرسال ماہ رمضان کاانتظار کرتے ہیں ، اسی میں اپنی تجارت،دوکان اورپس انداز کیے ہوئے مال کا حساب کرتے ہیں  اور جتنی زکوٰۃ ان پر واجب ہوتی ہے اسے مستحقین اورضرورت مندوں کو دیتے ہیں ۔یہ چیز اس قدرمعروف ہوگئی ہے کہ دینی مدارس کے محصلین بھی رمضان ہی میں  ان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ نہیں  کہا جاسکتاکہ اس رجحان کو رواج دینے میں خود ذمے داران مدارس کا حصہ ہے کہ مدارس رمضان میں  بندرہتے ہیں اور ان کے اساتذہ فارغ رہتے ہیں ، اس لیے انہیں نزدیک اوردور کے مقامات کا سفر کرنے کا موقع حاصل رہتاہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ احادیث کی روسے رمضان میں  ہرعمل کا اجر سات سوگناتک بڑھ جاتاہے،بلکہ بے حدوحساب ہوجاتا ہے، اس شوق میں  زکوٰۃ نکالنے والے زیادہ اجر وثواب کے لالچ میں  رمضان کا انتظار کرتے ہیں ۔ کوئی بھی وجہ ہو،ادائیگیِ زکوٰۃ کو رمضان تک ٹالنا اور اسی میں نکالنے پراصرارکرنا درست نہیں  ہے۔
فرضیتِ زکوٰۃ کے لیے دوچیزیں  ضروری ہیں ایک یہ کہ آدمی کے پاس بہ قدرِ نصاب مال ہواوردوسرے وہ مال اس کے پاس سال بھر محفوظ رہاہو۔ اگرکسی شخص پر ربیع الاول کے مہینے میں زکوٰۃ فرض ہوگئی اوروہ چھ (۶)ماہ تاخیرکرکے اسے رمضان میں اداکرتا ہے تو وہ ادائیگیِ زکوٰۃ میں  تاخیرکا قصوروارہوگا۔اگررمضان سے قبل ہی اس کا انتقال ہوگیا تواس پرزکوٰۃ فرض ہوجانے کے باوجودادانہ کرنے کا گناہ ہوگا۔
امام نوویؒ نے لکھا ہے’’زکوٰۃ فرض ہونے کے بعد اس کی فوراً ادائیگی ضروری ہے۔اگرصاحبِ نصاب اس کی فوری ادائیگی پرقادرہوتو اس کے لیے اس میں تاخیرکرنا جائز نہیں ہے۔یہ بات جمہورعلمانے کہی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’زکوٰۃ اداکرو۔‘‘ اس حکم کا تقاضا ہے کہ اس پرفوراً عمل کیاجائے۔‘‘(المھذب۵؍۳۰۸)
شیخ ابن عثیمینؒ نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے
’’زکوٰۃ اوردیگر صدقات فضیلت والے مہینے میں  نکالنا افضل ہے، لیکن جب سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ فرض ہوجائے تو ضروری ہے کہ فوراً نکال دی جائے اور رمضان تک اسے مؤخرنہ کیا جائے۔مثلاً اگرماہ رجب میں سال پوراہوتو رمضان تک انتظارنہ کرے اور اگر ماہ محرم میں سال پوراہوتو اگلے رمضان تک اسے نہ ٹالے۔ جس مال پررمضان میں سال پوراہو اس کی زکوٰۃ رمضان میں نکالی جائے۔البتہ اگرکبھی مسلمان بھکمری کا شکارہوجائیں ،اس بناپروہ سال پورا ہونے سے پہلے ہی زکوٰۃ نکالنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں  ہے۔‘‘(مجموع الفتاوی۱۸؍۲۹۵)
یقیناً ماہ ِ رمضان کو دیگر مہینوں  کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے۔ اس میں اعمالِ خیر کا اجر بہت زیادہ بڑھادیاجاتاہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اجر دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک بندہ کب،کس کی، کس حالت میں مدد کررہاہے؟ یہ دیکھتے ہوئے وہ غیر رمضان میں  نکالی جانے والی زکوٰۃ وصدقات کا اجر بہت زیادہ بڑھاکردے سکتا ہے،اتنا ہی جتنا رمضان میں نکالنے پرملتا،بلکہ ،ممکن ہے،اس سے بھی زیادہ۔