اگر ماں باپ کے حکم میں اختلاف ہو

اگر والدین (ماں باپ) اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کو کوئی حکم دیں اور اس حکم میں دونوں (ماں باپ) کے درمیان اختلاف ہوجائے اور ان میں سے کوئی حکم معصیت پر مبنی بھی نہ ہو تو اولاد پر کس کے حکم کی تعمیل لازم ہے؟ بہ طور ِ مثال میری والدہ مجھ سے کہیں کہ تم دہلی سے علی گڑھ جاؤ اور والد صاحب وہاں جانے سے منع کریں تو مجھ پر کیا لازم ہے؟ مجھے کس کا حکم ماننا چاہیے؟ میں نے جمعہ کے ایک خطبے میں سنا ہے کہ خدمت ماں کی باپ پر مقدم ہے، مگر حکم باپ کا ماں کے حکم پر فوقیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ باپ گھر کا ذمہ دار اور نگراں ہوتا ہے، اس لیے اس کے حکم کی تعمیل لازم ہے۔ امام صاحب نے یہ بھی کہا کہ ماں کا درجہ باپ کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بات نہ قرآن میں کہیں مذکور ہے نہ حدیث میں ۔ آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و حدیث کے حوالے سے تحریر فرمائیں کہ یہ دونوں باتیں کہاں تک صحیح ہیں ؟
جواب

اللہ تعالیٰ نے حقوق العباد میں سب سے بڑھ کر حق والدین کا قرار دیا ہے اور ان کے ساتھ حسن ِ سلوک کی بڑی تاکید کی ہے۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کا صریح حکم موجود ہے۔ (البقرۃ: ۸۳، النساء: ۳۶، الانعام: ۱۵۱، بنی اسرائیل: ۲۳، العنکبوت: ۸، لقمان: ۱۴، الاحقاف: ۱۵) سورۂ بنی اسرائیل میں بہت دل کش اور مؤثر اسلوب میں کہا گیا ہے کہ ’’اگر ماں باپ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے تک زندہ رہیں تو انھیں اف تک نہ کہو نہ انھیں جھڑک کر جواب دو، بل کہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما، جس طرح انھوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔‘‘ (آیات: ۲۳-۲۴) احادیث میں بھی والدین کے ساتھ حسن ِ سلوک کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب عمل اور ان کی نافرمانی کو سب سے بڑا گناہ (اکبر الکبائر) قرار دیا گیا ہے۔ (بخاری و مسلم) آیات ِ قرآنی اور احادیث نبوی دونوں میں ’والدین‘ کا لفظ آیا ہے، جس میں ماں باپ دونوں شامل ہیں ۔ لیکن بعض آیات اور احادیث سے اشارہ ملتا ہے کہ حسن ِ سلوک کے معاملے میں ماں کا درجہ باپ سے بڑھ کر ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں : ’’ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا: تمھاری ماں ۔ اس نے کہا: پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: تمھاری ماں ۔ اس نے کہا: پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: تمھاری ماں ۔ اس نے کہا: پھر کون؟ فرمایا: تمھارا باپ۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الادب، باب من احق الناس بحسن الصحبۃ، حدیث: ۵۹۷۱)
اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن ِ حجر عسقلانیؒ نے بعض محدثین کرام کے حوالے سے لکھا ہے:
’’ابن بطالؒ فرماتے ہیں : اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن ِ سلوک کے معاملے میں ماں کا درجہ باپ کے مقابلے میں تین گنا بڑھا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تین کام ماں تنہا انجام دیتی ہے۔ وہ حمل، پھر وضع حمل پھر رضاع کی تکلیفیں اکیلے برداشت کرتی ہے۔ پھر بچے کی پرورش کا کام ماں باپ دونوں مل کر انجام دیتے ہیں ۔ اس کا اشارہ قرآن کریم میں بھی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِج حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ (لقمان: ۱۴) ’’اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔‘‘ اس آیت میں ماں باپ دونوں کے ساتھ حسن ِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن مذکورہ تینوں امور میں ماں کا تذکرہ خصوصیت سے کیا گیا ہے۔
قرطبی نے لکھا ہے: مراد یہ ہے کہ ماں اپنے بیٹے کی جانب سے حسن سلوک کی زیادہ مستحق ہے اور حقوق کے ٹکراؤ کی صورت میں اس کا حق باپ کے حق پر مقدم ہے۔
قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں : جمہور کہتے ہیں کہ حسن ِ سلوک کے معاملے میں ماں کا درجہ باپ سے بڑھ کر ہے۔‘‘ (فتح الباری، دار المعرفۃ، بیروت، ۱۰/۴۰۲)
اوپر جو کچھ عرض کیا گیا اس کا تعلق خدمت، تابع داری اور اچھے برتاؤ سے ہے۔ اس کے ساتھ یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ گھر کے انتظام و انصرام کا ذمہ دار باپ ہے اور دیگر افراد ِ خانہ کو اس کا حکم ماننے کا پابند کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ (النساء: ۳۴)
’’مرد عورتوں پر قوام ہیں ۔‘‘
قوام اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو۔ (ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ، سورۂ النساء حاشیہ: ۳۵) اس آیت میں ’مرد‘ سے مراد شوہر اور ’عورتوں ‘ سے مراد بیویاں ہیں ۔ اسلامی معاشرت میں نظامِ خاندان کے دائرے میں حکم و اختیار کا مالک شوہر ہے۔ بیوی بچوں کو اس کی مرضی ملحوظ رکھنی اور اس کے حکموں کی پابندی کرنی چاہیے۔ جن تہذیبوں اور معاشروں میں عورتوں کو بے لگام آزادی دے دی گئی ہے اور انھیں اپنی مرضی کا مالک بنا دیا گیا ہے، اسی طرح جن خاندانوں میں اقتدار کے دو مراکز بن جاتے ہیں ، وہ انتشار، بے اطمینانی اور پراگندگی کا بدترین نمونہ ہوتے ہیں ۔ اسلامی نظامِ خاندان میں بیوی شوہر کی تابع دارِ محض اور محکوم نہیں ، بل کہ مشیر کار ہوتی ہے۔ اس لیے بچوں کے سامنے ایسی صورت حال کم ہی پیش آتی ہے جب انھیں ماں باپ الگ الگ کاموں کا حکم دیں اور وہ اس مخمصے کا شکار ہوں کہ کس کا حکم مانیں ، کس کا نہ مانیں ؟ پھر بھی اگر کبھی وہ ایسی صورت ِ حال سے دو چار ہوں تو انھیں باپ کا حکم ماننا چاہیے، الا یہ کہ وہ کسی معصیت کا حکم دے، یا اس کی بات ماننا بدیہی طور پر نا مناسب ہو۔ امام مالکؒ سے کسی نے دریافت کیا: میرا باپ مجھے بلاتا ہے، میری ماں مجھے روکتی ہے۔ میں کیا کروں ؟ انھوں نے جواب دیا: ’’اپنے باپ کا کہنا مانو اور اپنی ماں کی نافرمانی نہ کرو۔‘‘ (فتح الباری، ۱۰/۴۰۲) یعنی باپ کے مقابلے میں ماں کسی بات کا حکم دے یا کسی چیز سے روکے تو اس کی بات نہ ماننا اس کی نافرمانی نہیں ہے۔