تعویذ گنڈوں کی شرعی حیثیت

ہمارے معاشرے میں تعویذ گنڈے کا چلن عام ہے۔ اس پر اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اکثر ہندو پاک کے کرکٹ کھلاڑی گلے میں تعویذ باندھے نظر آتے ہیں ۔ بچوں کو نظر بد سے بچانے کے لیے تعویذ باندھتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ہماری عورتوں کا بھی بہت پکاّ عقیدہ ہے۔ مہربانی فرما کر صحیح رہ نمائی فرمائیں کہ اس کی دین میں کیا حیثیت ہے؟
جواب

عربوں میں بھی تعویذ گنڈوں کا خوب چلن تھا۔ انھیں بچوں کے گلے میں لٹکایا جاتا یا بازو پر باندھا جاتا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس سے وہ نظر ِ بد سے محفوظ رہتے ہیں اور کسی مصیبت کا شکار نہیں ہوتے۔ یہی نہیں ، بلکہ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ان کے ذریعے انسان کی تقدیر بھی بدلی جاسکتی ہے۔ وہ ان تعویذ گنڈوں کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے۔ ان کے استعمال کے بعد وہ اللہ سے حاجت روائی کی بھی ضرورت نہیں محسوس کرتے تھے۔ اسی لیے احادیث میں تعویذ کے استعمال سے منع کیا گیا ہے اور اسے شرک قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَلَّقَ تَمِیْمَۃً فَقَدْ اَشْرَکَ۔ (مسند احمد، ۴/۱۵۶)
’’جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
اِنَّ الرُّقَی وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَۃَ شِرْکٌ۔(ابو داؤد، کتاب الطب، باب فی تعلیق التمائم، حدیث: ۳۸۸۳، سنن ابن ماجہ، ابواب الطب، باب فی تعلیق التمائم، حدیث: ۳۵۳۰)
’’جھاڑ پھونک، تعویذ گنڈے اور جادو ٹونا شرک ہے۔‘‘
تعویذ کے استعمال کو شرک قرار دیے جانے کی وجہ یہی ہے کہ اہل عرب انھیں بہ ذات خود مؤثر سمجھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ ان سے نظر ِ بد سے حفاظت ہوتی ہے اور مصیبتیں دور ہوتی ہیں ۔ حالاں کہ مصیبتیں دور کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے اسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا اور اسی پر توکل کرنا چاہیے۔
اگر تعویذ قرآنی آیات اور اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر مشتمل ہو، یا اس میں کوئی شرکیہ بات نہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ اس سلسلے میں شروع سے اختلاف رہا ہے۔ حضرات صحابہؓ میں سے ابن مسعودؓ، ابن عباسؓ، حذیفہؓ اور عقبہ بن عامرؓ وغیرہ شائبہ شرک کی وجہ سے اسے ناجائز سمجھتے تھے۔ جب کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ اس کے جواز کے قائل تھے۔
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا کوئی حصہ، رسول اللہﷺ سے ثابت شدہ دعائیں یا ایسے کلمات، جو شرک سے پاک ہوں ، پڑھ کر جھاڑ پھونک اور دم کرنا جائز ہے۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ ایسی چیزوں کا تعویذ بھی بنایا جاسکتاہے۔ لیکن اس معاملے میں سخت احتیاط کی ضرورت ہے کہ ان کے سلسلے میں بدعقیدگی اور غلط تصورات شرک تک پہنچانے والے ہیں ۔
اس موضوع پر استاذ محترم مولانا سید جلال الدین عمری صدر ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ نے اپنی کتاب ’صحت و مرض اور اسلامی تعلیمات‘ کی بحث ’روحانی علاج‘ میں تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ اس سے رجوع کرنا مفید ہوگا۔