حدیث اور توہین صحابہ

بخاری میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت کا ایک حصہ یہ ہے: وَإِنَّ أُنَاسًا مِنْ أَصْحَابِي يُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ فَأَقُولُ: أَصْحَابِي أَصْحَابِي فَيَقُولُ: إِنَّهُمْ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ، فَأَقُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ: وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي۔۔۔إِلَى قَوْلِهِ۔۔۔ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ({ FR 1621 }) قیامت کے دن ’’میرے بعض اصحاب‘‘کو بائیں طرف سے گرفتارکیا جائے گا تو میں کہوں گا (انھیں کچھ نہ کہو) یہ تو میرے اصحاب ہیں ،یہ تو میرے اصحاب ہیں ۔ جواب ملے گا کہ تیری وفات کے بعد یہ لوگ الٹی چال چلے۔ اس کے بعد میں حضرت عیسیٰ کی طرح کہوں گا کہ خداوندا! جب تک میں ان میں موجود رہا،ان کے اعمال کا نگران رہا لیکن جب تو نے مجھے وفات دی تو تو ہی ان کا رقیب تھا۔ اس روایت سے حضرات صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی توہین اور تحقیر مترشح ہوتی ہے۔کیا یہ روایت صحیح ہے؟ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اﷲﷺ کے صحابہ کرام میں سے کچھ تعدادایسے لوگوں کی بھی ہے جنھیں مجرم کی حیثیت سے فرشتے قیامت کے دن بائیں طرف سے گرفتار کریں گے اور یہ کہ انھوں نے دنیاکی زندگی میں سرورِ دوعالمﷺ کی وفات کے بعد آپؐ کے طریقے کو چھوڑ کر غلط روش اختیار کی۔ اصحاب سے مراد جناب کے صحابہؓ ہی ہیں ،اس کے قرائن یہ ہیں : (۱) لفظ اصحاب خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جنھوں نے آپ کی زندگی میں ایمان کے ساتھ آپ سے تعاون کیا اور آپ کی رفاقت اختیار کی،انھیں اصحاب کا لقب دیا گیا۔ (۲) ایک روایت میں خود حضورﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ(اے جماعت صحابہ!) تم میرے اصحاب ہو اور جو اہل ایمان تمھارے بعد آنے والے ہیں ،ہمارے اخوان ہیں ۔({ FR 1591 }) (۳) حضرات صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی فضیلت، بزرگی اور منقبت کے سلسلے میں جو روایات آئی ہیں ،ان میں بھی اصحاب کا اطلاق صحابہ کرام پر ہے ۔ (۴) حضور ﷺ کے احتجاج پر فرشتے جواباً عرض کریں گے کہ ’’آپ کے جدا ہوجانے کے بعد ان لوگوں نے آپ کے طریقے کو چھوڑ دیا اور اپنی طرف سے نئے طریقے ایجاد کرلیے۔ حدیث إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ({ FR 1513 }) کے الفاظ اس پر شاہد ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ جب تک آپؐ زندہ رہے تو یہ لوگ آپ کے وفادار ساتھی کی طرح آپؐ کے دین کے پیرو کار رہے، لیکن جوں ہی آپ نے اس عالم ناسوت کو چھوڑا تو انھوں نے پھر دین میں رخنے ڈالنے شروع کیے۔ (۵)پھر آں جناب حضرت عیسیٰ ؑ کی طرح معذرت فرمائیں گے۔({ FR 1592 }) ان قرآنی الفاظ سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ معاملہ حضورﷺکے اصحاب کا ہے۔
جواب

امام بخاریؒ نے یہ حدیث کتاب أحادیث الأنبیاء میں دو جگہ ابن عباسؓ کے حوالے سے روایت کی ہے۔ ایک باب قول اللّٰہ تعالیٰ وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرَاھِیْمَ خَلِیْلًامیں ، دوسرے باب وَاذْکُرْ فیِ الْکِتَابِ مَرْیَمْ میں ۔ اس کے علاوہ اسی مضمون کی متعدد احادیث انھوں نے کتاب الرقاق باب فی الحوض میں انس بن مالکؓ، سہل بن سعدؓ، ابو سعید خدریؓ اور ابوہریرہؓ سے نقل کی ہیں ۔ ان سب کو جمع کرنے سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں :
(۱)یہ معاملہ ان لوگوں سے متعلق ہے جو نبیﷺ کے عہد میں اصحاب کے زمرے میں شمار ہوتے تھے مگر آپؐ کے بعد مرتد ہوگئے۔چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ اِنَّھْمُ لَنْ یَزَالُوا مُرْتَدِّیْنَ عَلَی أَعْقَابِھِمْ مُنْدُ فَارَقْتَھُمْ({ FR 1593 }) ’’یہ آپ کے جدا ہونے کے بعد اُلٹے پلٹ گئے تھے اور پلٹے رہے،یعنی مرتد ہونے کے بعد پھر انھوں نے توبہ نہ کی۔‘‘ دوسری روایت میں ہے کہإِنَّهُمُ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمُ الْقَهْقَرَى({ FR 1594 })[یا] عَلَى أَعْقَابِهِمُ الْقَهْقَرَى({ FR 1595 }) ’’وہ اُلٹے پھر گئے تھے، یعنی جس کفر سے آئے تھے،اسی کی طرف واپس چلے گئے۔‘‘
(۲) یہ معاملہ ان لوگوں سے بھی متعلق ہے جنھوں نے حضورﷺکے عہد میں اسلام تو قبول کرلیا تھا مگر بعد میں بُری روش اختیار کرلی۔ چنانچہ متعدد روایات میں ہے کہإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ({ FR 1596 }) اور إِنَّكَ لاَ عِلْمَ لَكَ بِمَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ({ FR 1597 }) ’’آپ نہیں جانتے کہ آپؐ کے بعد انھوں نے کیا کچھ کیا۔‘‘
دونوں صورتوں میں معاملہ بعض اصحاب سے متعلق ہے نہ کہ تمام اصحاب سے۔ ظاہر ہے کہ حضورﷺ کے زمانے میں جن لاکھوں آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا،وہ آپ کے اصحاب میں شمار ہوتے تھے۔ مگر انھی میں سے کچھ لوگ وہ بھی تھے جنھوں نے فتنۂ ارتدادمیں حصہ لیا اور اسی حالت میں جان دے دی۔ اور یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ ان میں کچھ لوگ ایسے ہوں جنھوں نے منافقانہ اسلام قبول کیا ہو اور اپنے نفاق کو چھپاے رکھاہو۔ اپنے اصحاب میں ایسے لوگوں کی موجودگی کا امکان فرض کرکے اگر آپﷺ نے کچھ باتیں بطور تنبیہ ارشاد فرمائی ہوں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے اور اس سے تمام صحابہ پر کوئی حرف نہیں آتا۔ مذکورہ بالا احادیث دراصل اسی تنبیہ کے قبیل سے ہیں اور ان سے مقصود یہ بتانا ہے کہ جو لوگ اپنے ایمان کی حفاظت نہ کریں گے یا کبائر میں مبتلا ہوں گے،انھیں آخرت میں محض شرفِ صحبت خدا کی گرفت سے نہ بچا سکے گا۔ (ترجمان القرآن ،فروری ۱۹۵۶ء)