سنیما ٹوگرافی بطورِ فن

میں ایک طالب علم ہوں ۔میں نے جماعتِ اسلامی کے لٹریچر کا وسیع مطالعہ کیا ہے۔خدا کے فضل سے مجھ میں نمایاں ذہنی وعملی انقلاب رونما ہوا ہے۔ مجھے ایک زمانے سے سینما ٹوگرافی سے گہری فنی دل چسپی ہے اور اس سلسلے میں کافی معلومات فراہم کی ہیں ۔نظریات کی تبدیلی کے بعد میری دلی خواہش ہے کہ اگر شرعاً ممکن ہو تو اس فن سے دینی واخلاقی خدمت لی جائے۔آپ براہ نوازش مطلع فرمائیں کہ اس فن سے استفادے کی گنجائش اسلام میں ہے یا نہیں ؟
جواب

میں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ یہ خیال ظاہر کرچکا ہوں کہ سینما بجاے خود جائز ہے، البتہ اس کا ناجائز استعمال اس کو ناجائز کردیتا ہے۔سینما کے پردے پر جو تصویر نظر آتی ہے،وہ دراصل ’’تصویر‘‘نہیں بلکہ پرچھائیں ہے،جس طرح آئینے میں نظر آیا کرتی ہے،اس لیے وہ حرام نہیں ، رہا وہ عکس جو فلم کے اندر ہوتا ہے،تو وہ جب تک کاغذ یا کسی دوسری چیز پر چھاپ نہ لیا جائے،نہ اس پر تصویر کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ وہ ان کاموں میں سے کسی کام کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے جن سے باز نہ رہنے ہی کی خاطر شریعت میں تصویر کو حرام کیا گیا ہے۔ان وجوہ سے میرے نزدیک سینما بجاے خود مباح ہے۔
جہاں تک اس فن کو سیکھنے کا تعلق ہے،کوئی وجہ نہیں کہ آپ کو اس سے منع کیا جائے۔ آپ کا اس طرف میلان ہے تو آپ اسے سیکھ سکتے ہیں ،بلکہ اگر مفید کاموں میں اسے استعمال کرنے کا اراد ہ ہوتو آپ اسے ضرور سیکھیں ۔کیوں کہ یہ قدرت کی طاقتوں میں سے ایک بڑی طاقت ہے، اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسے بھی دوسری فطری طاقتوں کے ساتھ خدمت خلق اور مقاصد خیر کے لیے استعمال کیا جائے۔خدا نے جو چیز بھی دنیا میں پیدا کی ہے،انسان کی بھلائی کے لیے اور حق کی خدمت کے لیے پیدا کی ہے۔یہ ایک بدقسمتی ہوگی کہ شیطان کے بندے تو اسے شیطانی کاموں کے لیے خوب خوب استعمال کریں اور خدا کے بندے اسے خیر کے کاموں میں استعمال کرنے سے پرہیز کرتے رہیں ۔ (ترجمان القرآن، اگست۱۹۵۲ء)
فلم کی دو قباحتیں : عورت کا کرداراور ایکٹنگ
سوال ۷۱۲ : یہ واضح فرمائیں کہ عورت کا کردار پردۂ فلم پر دکھانے کی بھی کوئی جائز صورت ممکن ہے یا نہیں ؟
جواب: اب رہا فلم کو اسلامی اغراض اور مفید مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا سوال، تو اس میں شک نہیں کہ بظاہر ایسے معاشرتی،اخلاقی، اصلاحی اور تاریخی فلم بنانے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی جو فواحش اور جنسی مہیجات اور تعلیمِ جرائم سے پاک ہوں ،اور جن کا اصل مقصد بھلائی کی تعلیم دینا ہو۔ لیکن غورسے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ اس میں دو بڑی قباحتیں ہیں جن کا کوئی علاج ممکن نہیں ہے:
اوّل یہ کہ کوئی ایسا معاشرتی فلم بنانا سخت مشکل ہے جس میں عورت کا سرے سے کوئی پارٹ نہ ہو۔اب اگر عورت کا پارٹ رکھا جائے تو اس کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں : ایک یہ کہ اس میں عورت ہی ایکٹر ہو۔ دوسرے یہ کہ اس میں مرد کو عورت کا پارٹ دیا جائے۔شرعاً ان میں سے کوئی بھی جائز نہیں ہے۔
دوم یہ کہ کوئی معاشرتی ڈراما بہرحال ایکٹنگ کے بغیر نہیں بن سکتا۔ایکٹنگ میں ایک عظیم الشان اخلاقی خرابی یہ ہے کہ ایکٹر آئے دن مختلف سیرتوں اور کردارو ں کا سوانگ بھرتے بھرتے بالآخر اپنا انفرادی کیرکٹر بالکل نہیں تو بڑی حد تک کھو بیٹھتا ہے۔اس طرح چاہے ہم فلمی ڈراموں کو معاشرے کی اصلاح اور اسلامی حقائق کی تعلیم وتبلیغ ہی کے لیے کیوں نہ استعمال کریں ، ہمیں بہرحال چند انسانوں کو اس بات کے لیے تیار کرنا پڑے گا کہ وہ ایکٹر بن کر اپنا انفرادی کیرکٹر کھو دیں ۔یعنی دوسرے الفاظ میں اپنی شخصیت کی قربانی دیں ۔میں نہیں سمجھتا کہ معاشرے کی بھلائی کے لیے،یا کسی دوسرے مقصد کے لیے، خواہ وہ کتنا ہی پاکیزہ اور بلند مقصد ہو،کسی انسان سے شخصیت کی قربانی کا مطالبہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔جان، مال،عیش، آرام،ہر چیز تو قربان کی جاسکتی ہے اورمقاصد عالیہ کے لیے کی جانی چاہیے،مگر یہ وہ قربانی ہے جس کا مطالبہ خود اﷲ تعالیٰ نے اپنے لیے بھی نہیں کیا ہے، کجا کہ کسی اور کے لیے اس کامطالبہ کیا جاسکے۔
ان وجوہ سے میرے نزدیک سینما کی طاقت کو فلمی ڈراموں کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
(ترجمان القرآن، اگست۱۹۵۲ء)