فقہی اختلاف کے باوجود نماز با جماعت ادا کرنا

میرا تعلق جس فرقے سے تھا، اس کے بعض سنجیدہ علما یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب آپ فقہی مسلک میں جماعت اسلامی کے ارکان کو آزادی دیتے ہیں اور واقعتاً جزوی معاملات میں مختلف گروہ متحد الخیال ہیں بھی نہیں ، تو پھر آپ نماز کی جماعت میں سب کی شرکت کو لازمی کیوں قرار دیتے ہیں ؟ خود نماز سے متعلقہ مسائل میں بہت اختلافات ہیں اور ان کی بِنا پر لوگ اپنی نمازیں الگ پڑھنا چاہتے ہیں !
جواب

فقہی اختلافات کی بِنا پر نمازوں کو الگ کرنے کا کوئی ثبوت سلف میں نہیں ہے۔ یہ فقہی اختلافات صحابہ کرام ؓ کے درمیان بھی تھے اور تابعین کے درمیان بھی اور تبع تابعین کے درمیان بھی۔ لیکن یہ سب لوگ ایک ہی جماعت میں نماز پڑھتے تھے۔یہی طریقہ ائمۂ مجتہدین کا بھی رہا۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ نماز دین کی بنیادوں میں سے ہے اور فقہی اختلافات بہرحال فروعی ہیں ۔ان فروعی اختلافات کی بِنا پر نمازیں الگ کرنا تفرق فی الدین ہے، جس کو قرآن نے گمراہی قرار دیا ہے۔نمازیں الگ کرلینے کے بعد مسلمانوں کی ایک اُمت نہیں رہ سکتی اور اس کا امکان نہیں ہے کہ جو لوگ مل کر نماز نہیں پڑھ سکتے، وہ دین کو قائم کرنے اور قائم رکھنے کی سعی میں متحد ہوکر کام کر سکیں گے۔یہ چیز اب نظری نہیں رہی ہے بلکہ صدیوں کے عملی تجربے نے اسے ثابت کردیا ہے۔لہٰذا جو لوگ اپنے فرقی اختلافات کی وجہ سے نمازوں کی علیحدگی پر اصرار کرتے ہیں ،وہ دراصل دین کی جڑ پر ضرب لگاتے ہیں ۔ (ترجمان القرآن ،نومبر،دسمبر ۱۹۴۴ء)