لفظ’’دل ‘‘کا سائنسی اور ادبی مفہوم

خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ ({ FR 1644 }) (البقرہ:۷) سے یہ خیال آتا ہے کہ گویا دل خیالات کی ایک جلوہ گاہ (agency) ہے۔شاید اس زمانے میں جالینوس کے نظریات کے تحت’’دل‘‘ کو سرچشمۂ افکار (originator of thought) سمجھا جاتا تھا،لیکن آج کل طبی تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ دل دوران خون کو جاری رکھنے والا ایک عضو ہے، اور ہر قسم کے خیالات اور حسیّات اور ارادوں اور جذبات کا مرکز دماغ ہے۔ اس تحقیق کی وجہ سے ہر اس موقع پر اُلجھن پیدا ہوتی ہے جہاں ’’دل‘‘ سے کوئی ایسی چیز منسوب کی جاتی ہے جس کا تعلق حقیقت میں دماغ سے ہوتا ہے۔
جواب

’’دل‘‘کا لفظ ادب کی زبان میں کبھی اس معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے جس میں یہ لفظ علم تشریح(anatomy) اور علم وظائف الاعضا(physiology) میں استعمال ہوتا ہے۔ادب میں ’’دماغ‘‘(reason)کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کے برعکس ’’دل‘‘جذبات وحسیات اور خواہش اور ارادے کا مرکز مانا جاتا ہے۔ہم رات دن بولتے ہیں کہ میرا دل نہیں مانتا۔ میرے دل میں یہ خیال آیا، میرا دل یہ چاہتا ہے۔انگریزی میں (qualities of head and heart)کا فقرہ بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔یہ الفاظ بولتے وقت کوئی شخص بھی علم تشریح والا دل مراد نہیں لیتا ہے۔ممکن ہے کہ اس کا آغاز اُسی نظریے کے تحت ہوا ہو جو جالینوس کی طرف منسوب ہے۔ لیکن ادب میں جو الفاظ رائج ہوجاتے ہیں وہ بسا اوقات اپنے ابتدائی معنی کے تابع نہیں رہتے۔ (ترجمان القرآن، اپریل،مئی۱۹۵۲ء)