تفہیم القرآن ج۲ص۱۸۸پریہ عبارت ہے
’’ابتداً یہ حکم (اہل کتاب سے جزیہ لینے کا) یہودونصاریٰ کے متعلق دیاگیاتھا...........اس کے بعد صحابہ کرام نے بالاتفاق بیرون عرب کی تمام قوموں پراس حکم کو عام کردیا۔‘‘
آپ کی عنایت ہوگی اگر مجھے بتائیں کہاس جملہ کے تاریخی شواہد کیا ہیں ؟ کہاں ہیں ؟ مجھے تحریری نقلی شواہد درکار ہیں۔ عقلی دلیلیں فی الوقت ضروری نہیں۔
جواب
مولانا مودودی کی پوری عبارت یہ ہے
’’ابتداً یہ حکم یہود ونصاریٰ کے متعلق دیاگیا تھا لیکن آگے چل خود نبی ﷺ نے مجوس سے جزیہ لے کر انھیں ذمی بنایا اور اس کے بعد صحابۂ کرام نے بیرون عرب کی تمام قوموں پراس حکم کو عام کردیا۔‘‘
جزیہ کے حکم کو غیراہل کتاب یعنی مشرک وکافر قوموں پرعام کرنے کے شواہد خود کتب احادیث میں موجود ہیں۔ مجھے اس وقت جو شواہد مل سکے وہ میں آپ کی خدمت میں بھیج رہاہوں۔ افسوس ہے کہ کتابیں اس وقت میرے پاس بہت کم ہیں اور اتنی فرصت نہیں کہ لائبریریوں سے استفادہ کرسکوں۔
مجوس سے جو ایک مشرک قوم ہے۔ جزیہ لینے کے بارے میں نبی ﷺ کی قولی حدیث بھی ہے اور حضورﷺ نے خود ان سے جزیہ لیا بھی ہے۔ قولی حدیث یہ ہے
ان عمرذکرالمجوس فقال ماادری کیف اصنع فی امرھم، فقال عبدالرحمٰن بن عوف اشھد لسمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول سنّوابھم سنۃ اھل الکتاب۔ (مؤطا مالک ج۲ باب اخذالجزیہ من المجوس)
’’حضرت عمرؓ نے مجوس کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نہیں جانتا کہ ان کے معاملے میں کس طرح عمل کروں۔ یہ سن کر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا میں گواہی دیتاہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ان سے جزیہ لینے میں اہل کتاب جیسا معاملہ کرو۔‘‘
حضورﷺ نے خود مجوس ہجرسے جزیہ لیاتھا۔ اس کا ذکر بخاری باب الجزیہ، ترمذی اور ابودائود کتاب الخراج میں ہے۔ بخاری اس وقت میرے پاس نہیں ہے۔ ترمذی کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں
ان عمرکان لا یاخذالجزیۃ من المجوس حتی اخبرہ عبدالرحمٰن بن عوف ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اخذ الجزیۃ من مجوس ھجر۔ (ترمذی باب اخذ الجزیۃ من المجوسی)
’’حضرت عمرؓ مجوس سے جزیہ نہیں لیتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نےانھیں خبردی کہ نبی ﷺ نے مجوس ہجرسے جزیہ لیا تھا۔‘‘
مجوس کے علاوہ دوسری مشرک قوموں سے جزیہ لینے کا ثبوت یہ ہے
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اخذ الجزیۃ من مجوس بحرین، وان عمربن الخطاب اخذھا من مجوس فارس، وان عثمٰن بن عفان اخذھا من البربر۔
(مؤطا، مالک ج۲)
’’رسول ﷺ نے مجوس بحرین سے جزیہ لیا اور عمربن الخطابؓ نے مجوس فارس سے جزیہ لیا اور عثمان بن عفان ؓ نے بربرسےجزیہ لیا۔‘‘
قبطیوں سے جزیہ لینے کا ثبوت اس حدیث سے ملتاہے
ان ھشام بن حکیم وجد رجلا علی حمص یشمس ناسا من القبط فی اداء الجزیۃ فقال ماھذا؟ سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ان اللہ عزوجل یعذب الذین یعذبون الناس فی الدنیا۔ (ابودائود جلد۲ کتاب الخراج)
’’ہشام بن حکیم نے حمص میں ایک شخص کو پایا کہ وہ چند قبطیوں کو جزیہ وصول کرنے کے لیے دھوپ کی سزادے رہے ہیں تو انھوں نے کہا یہ کیا ہے؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ قبطیوں سے جزیہ لیا جاتا تھا۔ حضرت ہشام نے انہیں تیز دھوپ میں ڈال دینے کی سزا کا انکار کیا اور حضورؐ کی حدیث سنائی۔
صاحب فتح القدیر نے طبقات ابن سعد کے حوالے سے لکھا ہے
ان عمروضح الجزیۃ علی اھل الذمۃ فیما فتح من البلاد فوضع علی الفتی ثمانیۃ واربعین درھماً...... (فتح القدیر ج۴)
’’حضرت عمرؓ نے مفتوحہ شہروں میں اہل ذمہ (ذمیوں )پر جزیہ لگایا تو جوان آدمی پر ۴۸درہم مقرر کیے..........‘‘
ابن سعد کی روایت سے معلوم ہواکہ ایک قاعدہ کلیہ کے طورپر حضرت عمرؓ نے مفتوحہ ممالک کے ذمیوں پر جزیہ عائد کیاتھا۔
یہ چند شواہد ہیں جو فی الحال مجھے مل سکے۔ نبی ﷺ نے مجوس سے جو اہل کتاب نہ تھے، جزیہ لینے کا حکم دیا تھا اور خود جزیہ لیاتھا۔اس سے صحابہ کرام نے سمجھا کہ جزیہ کا حکم اہل کتاب کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ اسی لیے انھوں نے بیرون عرب کی تمام مشرک وکافر قوموں پراس حکم کو عام کردیا اور اس مسئلے میں تمام صحابہ کرام متفق تھے۔