نبی پر نزولِ وحی کی نفسیاتی تعبیر

مجھ سے ایک نفسیاتی معالج ( psychiatrist) نے سوال کیا کہ نبی پر نزولِ وحی کیا اسی طرح کی چیز نہیں جیسے کہ ایک سائی کوٹک مریض کو بعض صورتیں دکھائی دیتی ہیں اور آوازیں سنائی دیتی ہیں (نعوذ باللّٰہ نقلِ کفر کفر نبا شد)۔ میں اسے پوری طرح قائل نہ کرسکا اس لیے آپ سے راہ نمائی کا طالب ہوں ۔
جواب

آپ سے اس سائی کٹیرسٹ نے جو کچھ کہا ہے وہ بے چارا اپنے فن کے اندر اُس مشاہدے اور اس نورِ علم کی کوئی اور توجیہ نہیں پاسکتا جو نبی کو نصیب ہوتا ہے۔ سائی کلوجی خدا کے بغیر نفسِ انسانی کے معّمے کو حل کرنا چاہتی ہے۔ اس کی مثال اُس شخص کی سی ہے جو کُنجی کے بغیر قفل کھولنا چاہے۔ اسے اگر قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی توفیق ہوتی تو وہ اپنی سائی کٹیری کے فن میں اس امر کی کوئی توجیہ نہ پاسکتا کہ ایک سائی کوٹک ( psychotic)کا نفسیاتی تجربہ آخر قرآن جیسی کتاب اور محمد ﷺ کی لیڈر شپ جیسی کمال درجہ جامع، متوازن اور لازوال (everlasting)قیادت کیسے لاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ معاملہ سائی کٹیری کے فن کے حدود سے بالاتر اور وسیع تر نوعیت کا ہے۔ آدمی اگر بے لاگ غیر متعصب اور ضد سے پاک ہو تو وہ اسے سائی کٹیری کی گرفت میں لانے کی کوشش کرنے کے بجاے اپنے فن کی کوتاہی کا اعتراف کرے گا۔ اس قفل کی کنجی اُسے کبھی نہیں مل سکتی جب تک وہ اس بات کو نہ مانے کہ ایک خدا ہے، اور انسان کو اسی نے زمین میں پیدا کیا ہے، اور اُسی نے یہ ذمہ لیا ہے کہ نوعِ انسانی کی راہ نمائی کا انتظام خود انسانوں ہی میں سے بعض افراد کے ذریعے سے کرے، اور نبی کو وہی اس غرض کے لیے کچھ مشاہدے کراتا ہے اور ایک خاص طریقے سے اس کو علم دیتا ہے۔ اس بات کو جانے بغیر نبی کے مشاہدے اور الہام کی یہ احمقانہ تعبیر کہ وہ نعوذ باللّٰہ ایک ذہنی علالت کا نفسیاتی تجربہ تھا، کوئی کر بھی دے تو کیا وہ اپنی سائی کٹیری کے پورے علم سے کسی ایسے نفسیاتی مریض کی کوئی نظیر لاسکتا ہے جس نے فریبِ نظر و تخیل (hallucination) کی حالت میں قرآن جیسی ایک کتاب تیار کر دی ہو اور پھر اسے لے کر وہ دنیا کی راہ نمائی کے لیے اٹھا ہو اور اس نے نہ صرف ایک قوم کی زندگی میں بلکہ نوعِ انسانی کے ایک بہت بڑے حصے کی زندگی میں ایسا ہمہ گیر انقلاب برپا کر دیا ہو۔ (ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۶۷ء)