وسوسوں کا علاج

مجھے وسوسے بہت آتے ہیں اور ایسے آتے ہیں کہ بسا اوقات خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ گناہِ کبیرہ یا شرک کے دائرے میں نہ آگیا ہو۔ میری ملازمت ایسی ہے کہ مجھے جنس مخالف سے اکثر و بیش تر ملتے رہنا پڑتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے نہ بچایا ہوتا تو یقینا میں زنا جیسے فعل کا مرتکب ہوجاتا۔ لیکن اللہ کا فضل ہے کہ لمحۂ آخر میں وہ مجھے ضرور اس دلدل سے بچا لیتا ہے، لیکن نگاہ کا اور کچھ فعل بد کا عمل سرزد ہوجاتا ہے۔ برائے مہربانی مجھے کوئی وظیفہ یا کوئی طریقہ ایسا بتائیے کہ میں ان دونوں افعال سے بچ جاؤں ۔
جواب

وسوسے دل میں پیدا نہ ہوں ، اس پر کسی انسان کو قابو نہیں ہے۔ وہ ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ۔ شیطان ہر ایک کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ وہ اسے بہکانے اور گناہ میں لت پت کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
اِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ۔
(صحیح بخاری ،کتاب الاعتکاف، باب زیارۃ المرأۃ زوجھا فی اعتکافہ، حدیث: ۲۰۳۸، صحیح مسلم، کتاب السلام ،حدیث : ۲۱۷۵)
’’شیطان انسان کے اندرون میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔‘‘
کسی مسلمان کے دل میں برے خیالات آتے ہیں ، ایسے خیالات، جنھیں نہ وہ زبان پر لانے کی ہمت کرتا ہے اور نہ ان کو رو بہ عمل لانے پر آمادہ ہوتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کو غلط اور گناہ کے کام سمجھتا ہے اور یہ اس کے صاحب ِ ایمان ہونے کی علامت ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ چند اصحاب ِ رسول آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ’’ہمارے دلوں میں ایسے ایسے خیالات آتے ہیں کہ ہم انھیں زبان پر لانے کی ہمت نہیں کرسکتے۔‘‘ آں حضرت ﷺ نے فرمایا: ’’کیا واقعی ایسا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: ہاں ۔ آپؐ نے فرمایا:
ذاک صریح الایمان۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الوسوسۃ من الایمان، حدیث: ۱۳۲، ۱۳۳، عن ابی ھریرۃ)
’’یہ ایمان کی نشانی ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ، جو حضرت ابن عباسؓسے مروی ہے، مذکور ہے کہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسولؐ! بسا اوقات میرے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ انھیں زبان پر لانے سے بہتر ہے کہ میں جل کر راکھ ہوجاؤں ۔ آپؐنے تین مرتبہ اللّٰہ اکبر کہا، پھر فرمایا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ رَدَّ کَیْدَہٗ اِلَی الْوَسْوَسَۃِ۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الآداب، باب فی ردّ الوسوسۃ، حدیث: ۵۱۱۲)
’’اللہ کا شکر ہے، جس نے شیطان کے مکرو فریب کو وسوسہ کی جانب پھیردیا۔‘‘
دل میں جو وسوسے پیدا ہوتے ہیں ، اگر انسان انھیں زبان پر لائے نہ ان کے مطابق اعضاء و جوارح کو حرکت دے تو وہ قابلِ معافی ہیں ، ان پر اللہ تعالیٰ اس کی گرفت نہیں فرمائے گا۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ لِیْ عَنْ اُمَّتِیْ مَا وَسْوَسَتْ بِہٖ صُدُوْرُھَا مَالَمْ تَعْمَلْ اَوْ تَکَلَّمْ۔ (صحیح بخاری، کتاب العتق، باب الخطأ والنسیان، حدیث: ۲۵۲۸، و دیگر ابواب، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تجاوز اللّٰہ عن حدیث النفس والخواطر بالقلب اذا لم تستقر، حدیث: ۱۲۷)
’’میری امت کے افراد کے دلوں میں وسوسے پیدا ہوں ، لیکن وہ ان کے مطابق عمل کریں نہ انھیں زبان پر لائیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کی باز پرس نہیں کرے گا۔‘‘
ایک دوسری حدیث سے، جو اس سے زیادہ مفصّل ہے، اللہ تعالیٰ کی کمالِ رحمت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کے مطابق اگر کسی انسان کے دل میں کسی برے کام کا ارادہ پیدا ہو، لیکن وہ اس پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی لکھ دیتا ہے۔ پوری حدیث یہ ہے:
اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَیِّئَاتِ، ثُمَّ بَیَّنَ ذٰلِکَ، فَمَنْ ھَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْھَا کَتَبَھَا اللّٰہُ لَہٗ عِنْدَہٗ حَسَنَۃً کَامِلَۃً، فَاِنْ ھُوَ ھَمَّ بِھَا فَعَمِلَھَا کَتَبَھَا اللّٰہُ لَہٗ عِنْدَہٗ عَشَرَ حَسَنَاتٍ اِلٰی سَبْعِ مِائَۃِ ضِعْفٍ اِلٰی أَضْعَافٍ کَثِیْرَۃٍ وَ مَنْ ھَمَّ بِسَیِّئَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْھَا کَتَبَھَا اللّٰہُ لَہٗ عِنْدَہٗ حَسَنَۃً کَامِلَۃً، فَاِنْ ھُوَ ھَمَّ بِھَا فَعَمِلَھَا کَتَبَھَا اللّٰہُ لَہٗ سَیِّئَۃً وَاحِدَۃً۔
(صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب من ھم بحسنۃ أو سیئۃ، حدیث ۶۴۹۱، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب اذا ھمّ العبد بحسنۃ کتبت و اذا ھم بسیئۃ لم تکتب، حدیث: ۱۳۱)
’’اللہ نے نیکیوں اور برائیوں کو طے کردیا ہے اور ان کی وضاحت کردی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے، مگر اس پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے نامۂ اعمال میں ایک پوری نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر وہ ارادہ کرنے کے بعد اس پر عمل بھی کرلے تو اس پر اسے دس نیکی سے سات سو گنا تک، بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ اجر دیتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص کسی برائی کا ارادہ کرے، مگر اس پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کے لیے ایک پوری نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر وہ اس پر عمل بھی کرلے تو اس کے نامۂ اعمال میں صرف ایک برائی لکھ دیتا ہے۔‘‘
وسوسے دل میں پیدا ہوں تو انھیں جھڑک دیجیے۔ کوشش کیجیے کہ بات آگے تک نہ بڑھنے پائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیے کہ وہ آپ کو ہر طرح کی معصیتوں سے بچائے۔ اس احساس کو تازہ رکھیے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات علیم و خبیر ہے۔ وہ نگاہوں کی چوری اور دلوں کے بھید سے بھی باخبر ہے:
یَعْلَمُ خَآئِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُo (المومن:۱۹)
’’اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور وہ راز تک جانتا ہے، جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں ۔‘‘
اور اگر کبھی شیطان کے بہکاوے میں آجائیں اور کسی معصیت کا ارتکاب کر بیٹھیں تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹیے۔ اس کے سامنے گڑ گڑائیے، اس سے معافی مانگیے اور اس معصیت کا دوبارہ ارتکاب نہ کرنے کا عزم کیجیے۔ یہ وظیفہ ان شاء اللہ آپ کو گناہوں سے بچانے میں معاون ثابت ہوگا۔