کعب احبار کون ہیں ؟

ایک کتاب میں بہت سےصحابہ کرام کی حکایات جمع کرکے پیش کی گئی ہیں ۔ اس میں حضرت کعب احبار کے بارے میں تحریر ہے: ’’ کعب احبار کہتے ہیں : ا س ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر میں اللہ کے خوف سے رؤوں اورآنسو میرے رخسار پر بہنے لگیں تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کروں ۔‘‘ ( حکایاتِ صحابہ ص ۳۹) ایک دوسری کتاب میں لکھا گیا ہے : ’’کعب احبار سے نقل کیا گیا ہے کہ جوکثرت سے اللہ کا ذکر کرے وہ نفاق سے بری ہے ۔‘‘ (فضائل ذکر، ص ۵۵) براہِ کرم واضح فرمائیں کہ یہ حضرت کعب احبار کیا وہی ہیں جن کا تذکرہ غزوۂ تبوک میں پیچھے رہ جانےوالوں میں ہوا ہے، یا یہ کوئی اورصحابی ہیں ؟
جواب

غزوۂ تبوک میں جو صحابی پیچھے رہ گئےتھے ان کا نام کعب بن مالکؓ ہے۔ وہ انصار کے قبیلے خزرج سے تعلق رکھتے تھے ۔ کعب احبار صحابی نہیں ، بلکہ تابعی ہیں ۔
کعب احبار کا تعلق یمن کے مشہور خاندان حمیر سے تھا ۔ وہ عہد رسالت میں موجود تھے ، لیکن انہیں قبولِ اسلام کی سعادت صحیح روایت کے مطابق حضرت عمر بن الخطابؓ کے عہدِ خلافت میں ہوئی ۔ ان کا شمار قبولِ اسلام سے قبل یہود کے جیدّ علماء میں ہوتا تھا۔ یہودی مذہب کے متعلق ان کی معلومات بہت وسیع تھیں ۔ کعب احبار نےقبولِ اسلام کے بعد کچھ دن مدینہ میں قیام کیا ،پھر شام چلے گئے تھے اوروہاں حمص میں مستقل سکونت اختیارکرلی تھی ۔شام کے زمانۂ قیام میں ان کامشغلہ زیادہ تر اسرائیلی قصص و مواعظ بیان کرنا تھا۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کے عہدِ خلافت میں ۳۲ھ میں ان کی وفات ہوئی۔
کعب احبار اگرچہ مشہور تابعی ہیں ، لیکن روایتِ احادیث کے معاملے میں انہیں مستند نہیں سمجھا جاتا۔ مولانا مجیب اللہ ندویؒ نے ان کے بارے میں لکھا ہے :
’’کعب کی علمی جلالت میں کوئی شبہ نہیں ۔ وہ یہودی مذہب کے بڑےنام ور عالم تھے، لیکن چوں کہ خود یہودیوں کا سرمایۂ عمل زیادہ تر قصص وحکایات تھیں اس لیے کعب کا سرمایۂ معلومات بھی تمام تر یہی تھا۔ اس سے ایک نقصان یہ ہوا کہ بہت سی بےسروپا اسرائیلی روایات ان کے ذریعے اسلامی لٹریچر میں داخل ہوگئیں ۔ اسی بنا پر بعضـ ائمہ حدیث کعب کوروایات میں ساقط الاعتبار سمجھتے ہیں ۔‘‘ (اہلِ کتاب صحابہ وتابعین ، مولانا مجیب اللہ ندوی ، دارالمصنفین ،شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ،۲۰۱۲، ص ۲۳۲)