گود لینے کا شرعی حکم

ایک مسلم جوڑا، جس کی شادی کو سات آٹھ برس ہوگئے ہیں ، اب تک اس کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی ہے۔ وہ کسی بچہ کو گود لینا(adoption)چاہتے ہیں ۔ کیا وہ ایسا کر سکتے ہیں ؟
جواب

کسی جوڑے کی شادی کو ایک برس سے زائد عرصہ گزرچکا ہو، لیکن اس کے یہاں اولاد نہ ہوئی ہو تو اسے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ بسا اوقات مرد یا عورت میں کوئی معمولی نقص ہوتا ہے، جو علاج سے دور ہو سکتا ہے۔
اگر کوئی جوڑا اولاد سے محروم ہو اور وہ کسی رشتے دار یا اجنبی بچے کو گود لینا چاہے تو ایسا کر سکتا ہے۔ شریعت میں اس کی اجازت ہے، البتہ وہ حقیقی اولاد کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا اور گود لینے والا اس کی ولدیت میں اپنا نام نہیں لکھوا سکتا۔ قرآن مجید میں صراحت سے ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَائَ کُمْ أَبْنَاءَ کُمْ ذٰلِکُمْ قَوْلُکُم بِأَفْوَاہِکُمْ وَاللَّہُ یَقُولُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِیْ السَّبِیْلَ۔ اُدْعُوہُمْ لِآبَائِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّہِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَائَ ہُمْ فَإِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَمَوَالِیْکُم (الاحزاب۴، ۵)
’’ اور نہ اس نے تمھارے منھ بولے بیٹوں کو تمھارا حقیقی بیٹا بنایا ہے۔ یہ تو وہ باتیں ہیں   جو تم لوگ اپنے منھ سے نکال لیتے ہو، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حق ہے اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہ نمائی کرتا ہے۔ منھ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پُکارو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے اور اگر تمھیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمھارے دینی بھائی اور رفیق ہیں ‘‘۔
عہد جاہلیت میں لوگ منھ بولے بیٹے کو حقیقی درجہ دیتے تھے، لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اس بات کو حرام قرار دیا گیا کہ کوئی شخص اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنا نسب منسوب کرے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنِ ادَّعیٰ اِلیٰ غَیْرِ اَبِیْہِ وَھُوَ یَعْلَمُ اَنَّہُ غَیْرُ اَبِیْہِ فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ (بخاری۶۷۶۶، مسلم۶۳)
’’جو شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرے، اس پر جنت حرام ہے ‘‘۔
اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت زیدؓ کی پرورش کی تھی اور اپنے بیٹے کی طرح انھیں پروان چڑھایا تھا۔ اسی لیے انھیں لوگ زید بن محمد کہنے لگے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انھیں ان کے باپ کی طرف منسوب کرکے زید بن حارثہؓ کہنے لگے۔ (بخاری۴۷۸۲، مسلم۲۴۲۵)
جس بچے کو گود لیا جائے اس پر وہی احکام نافذ ہوں گے جو اجنبی کے ہوتے ہیں ۔ وہ بچہ گود لینے والے کا وارث نہیں ہو سکتا، ہاں گود لینے والا اس کے حق میں ایک تہائی مال تک کی وصیت کر سکتا ہے اور اپنی زندگی میں جتنا چاہے ہبہ کر سکتا ہے۔ اسی طرح نکاح اور وراثت کے مسائل میں اسے ’اجنبی‘ سمجھتے ہوئے معاملہ کیا جا ئے گا، حقیقی اولاد کی حیثیت نہیں دی جائے گی۔