اختلاف کے جائز حدود

تحریک کا ہم درد ہونے کی حیثیت سے اس کے لٹریچر اور جرائد واخبارات کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں ۔اب تک بزرگان دیو بند اور دوسرے علما کی طرف سے جو فتوے شائع ہوتے رہے ہیں اور ان کے جو جوابات امیر جماعت ہند و امیر جماعت پاکستان ودیگر اراکین جماعت کی طرف سے دیے گئے ہیں ، سب کو بالالتزام پڑھتا رہا ہوں ۔اپنے بزرگوں کی اس حالت کو دیکھ کر بہت صدمہ ہوتا ہے مگر سواے افسوس کے اور چارہ کوئی نظر نہیں آتا۔ ان فتووں کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ تکفیر وتفسیق کا معاملہ جماعتِ اسلامی اور بزرگان دیو بند ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے،بلکہ جب ہم اسلاف کرام و ائمۂ عظام کی سیرتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم ان بزرگوں کی سیرتوں میں بھی اس مسئلے کو مختلف فیہ پاتے ہیں ۔مثلاً ایک گروہ میں امام ابن تیمیہؒ، امام ابن حزم اَندلسیؒ، امام ابن جوزیؒ وغیر ہم اکابر ہیں ۔دوسرے گروہ میں امام ابن العربی ؒ،امام غزالی اور امام ولی اﷲؒجیسے بزرگ ہیں ۔ان میں سے پہلا گروہ کہتا ہے کہ لا الٰہ اِلا اللّٰہ کا مطلب لا معبود الا اللّٰہ ({ FR 1605 }) ہے، دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس کا مطلب لا موجود الا اللّٰہ ({ FR 1606 })ہے۔ پہلا گروہ دوسرے گروہ کے اس عقیدے کو کفر والحاد کہتا ہے۔دوسرا گروہ اپنے اس عقیدے کو توحید کا اعلیٰ واکمل درجہ تصور کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ و ہ کلمہ جس کی تشریح کے لیے قرآن نازل کیا گیا،اسی کے متعلق علماے اُمت وائمۂ وقت کا یہ اختلاف کیوں ہے؟ اُمید ہے کہ آپ اس مسئلے پر ترجمان القرآن میں مفصل بحث فرمائیں گے۔
جواب

کسی مفصل بحث کے بجاے آپ کی تشفی کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ قرآن مجید اپنے مدعا کو بغیر کسی ابہام کے صاف صاف بیا ن کرتا ہے،اور اس نے کسی ایسی حقیقت کو جس کا جاننا آدمی کی ہدایت کے لیے ضروری تھا،واضح کیے بغیر نہیں چھوڑا ہے۔ مگر اختلافا ت پیش آنے کے دو بڑے اسباب ہیں :
ایک یہ کہ جب لوگ کسی قرآنی حقیقت کی اپنے الفاظ میں تعبیر کرتے ہیں اور قرآن کی حدود سے آگے بڑھ کر اپنی تشریحات پیش کرتے ہیں تو راے کے اختلافات، اور بسا اوقات سخت اختلافات کی گنجائشیں نکل آتی ہیں ۔
دوسرے یہ کہ جب لوگ اپنے آپ کو ایسے سوالات کا جواب دینے کا مکلف سمجھتے ہیں جن کی تکلیف خدا و رسولﷺ نے ان کو نہیں دی تھی تو جھگڑوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
اس پر بھی بات نہ بڑھے اگر ایک شخص اپنے بیان پر اور دوسرا اس کی تردید پر قناعت کرے۔ لیکن پہلے بھی بارہا ایسا ہوا ہے اور آج بھی ہورہا ہے کہ ایک شخص اپنی بات کہنے پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ اسے عین قرآن کی بات اور اس کے منکر کو صراحتاً یا کنایتاً قرآن کا منکر ٹھیرادیتا ہے،اور دوسرا شخص اس کی تردید پر اکتفا نہیں کرتا،بلکہ اسے ضال ومضل،اور بسا اوقات کافر تک ٹھیرا دیتا ہے۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر ہر ایک کے متبعین اپنے اپنے پیشوا کی بات کی پچ کرتے ہیں اور مزید تشدد برتنے لگتے ہیں ۔ان طریقوں سے مختلف فرقوں کی بِنا پڑ جاتی ہے اور ہر ایک دوسرے سے نماز اور مسجد اور شادی بیاہ تک کے تعلقات توڑ لیتا ہے، اور اپنے مخصوص مسائل پر کفر وایمان کی بنا رکھ دیتا ہے۔
یہ ہے خرابی کا اصل سبب! ورنہ اگر نص کو نص کی جگہ رہنے دیا جائے اور تعبیر وتشریح واستنباط کو مثل نص نہ بنایا جائے،اور بحث کو صرف اختلاف راے کی حد تک ہی رہنے دیا جائے تو اکثر خرابیاں سرے سے رونما نہ ہوں ،اور نہ وہ سوالات پیدا ہوں جن پر آپ نے پریشانی کا اظہار کیا ہے۔
جن بزرگوں کے آپ نے نام لیے ہیں اور جن کے نام نہیں لیے ہیں ، ان کے درمیان جن مسائل میں اختلافات اور شدید اختلافات ہوئے ہیں ،ان میں سے اکثر مسائل پر میں بھی اپنی ایک راے رکھتا ہوں ،اور لامحالہ میری راے ان میں سے بعض کے موافق اور بعض کے خلاف ہے۔ مگر میں صحیح کوصحیح اور غلط کو غلط کہنے پر ٹھیر جاتا ہوں ،اس سے آگے بڑھ کر ان لوگوں پر کوئی حکم چسپاں نہیں کرتا جن کی راے سے میں نے اختلاف کیا ہے، اور نہ بحث کا یہ طریقہ اختیار کرتا ہوں کہ’’میرے نزدیک فلاں شخص کی فلاں بات سے یہ لازم آتا ہے، اور یہ کفر یا فسق یا ضلالت ہے، لہٰذافلاں شخص ضال اور مضل یا کافر یا فاسق ہے‘‘۔ اس طرح کے حکم لگانے کو میں حق سے تجاوز سمجھتا ہوں ،کیوں کہ ہماری منطق کی رو سے اگر کسی شخص کے کسی قول سے ایک بُری بات لازم آتی ہو تو ہم اسے یہ الزام نہیں دے سکتے کہ اس ’’لازم‘‘ کا بھی وہ التزام کرتا ہے،اس لیے اسے اس کا ملتزم ٹھیرا کر اس پر وہ حکم لگانا جو اس بری بات کے ملتزم ہی پر لگایا جاسکتا ہو،کسی طرح جائز نہیں ۔
(ترجمان القرآن، اپریل،مئی۱۹۵۲ء)