اقامتِ حدود میں احوال کا لحاظ

تفہیمات حصہ دوم صفحہ ۲۹۸۔ اقامتِ حدود میں وقت کے حالات اور ملزم کے حالات کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے۔زمانۂ جنگ میں حد موقوف رکھی جاتی ہے۔قحط کے زمانے میں چور کے ہاتھ نہیں کاٹے جاتے۔ مہربانی فرما کر اس مسئلے کو کتاب وسنت کی روشنی میں مدلل بیان فرماویں ۔ حضرت سعدؓ کا واقعہ حدود اﷲ کو توڑنے چھوڑنے کے لیے قطعاً ناکافی ہے۔ انھوں نے کتاب وسنت سے کوئی مستحکم دلیل بیان نہیں فرمائی ہے۔({ FR 1844 })اسی طرح حضرت عمر ؓ کا حضرت حاطب ؓکے غلاموں کو چھوڑ دینا اور حاطبؓ سے عوض دلوانا بھی نوعیت جرم کی بدلی ہوئی کیفیت پر دلالت کرتا ہے،ورنہ مجرموں کو چھوڑ کر غیر مجرم انسان سے عوض دلوانا کیا معنی؟ یقیناً حضرت عمرؓ کے ذہن میں جرم کی نوعیت کچھ سرقہ کی سی نہ ہوگی بلکہ غصب کی سی ہوگی جس کی ضمانت ان کے مولیٰ سے لی گئی۔مہربانی فرما کر اس مسئلے میں کتاب وسنت کے مستحکم دلائل بیان فرما کر مشکور کریں ۔
جواب

اس بحث کو اگر آپ سمجھنا چاہتے ہیں تو علامہ ابن قیم ؒ کی کتاب اِعلام الموقعین میں فَصْلٌ فِي تَغْيِيرِ الْفَتْوَى وَاخْتِلَافِهَا بِحَسَبِ تَغَيُّرِ الْأَزْمِنَةِ وَالْأَمْكِنَةِ وَالْأَحْوَالِ وَالنِّيَّاتِ وَالْعَوَائِدِ({ FR 2053 }) کو بغور ملاحظہ فرمائیں ۔اس میں انھوں نے احادیث وآثار سے بکثرت مثالیں اس امر کے ثبوت میں جمع کی ہیں کہ واقعات وحوادث پر اسلامی احکام کو آنکھیں بند کرکے چسپاں نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے زمانے اور مقام اور اشخا ص متعلقہ کے انفرادی حالات اور دوسری بہت سی چیزوں کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔آپ نے میری پیش کردہ جن مثالوں پر گرفت فرمائی ہے، ان سب پر اور ان کے علاوہ متعدد دوسری مثالوں پر بھی علامہ موصوف نے مفصل بحث کی ہے۔ ( ترجمان القرآن، مئی ۱۹۵۶ء)