حضرت عمرؓ کے قبولِ اسلام کے وقت مسلمانوں کی تعداد

ترجمان القرآن اگست ۱۹۷۶ء کے صفحہ۱۹ پر حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل فرمایا گیا ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺکے ساتھ ۳۹آدمی تھے اور میں نے شامل ہوکر ان کو۴۰کر دیا۔ آپ نے اس قول کی یہ توجیہ فرمائی ہے کہ ممکن ہے اس وقت حضرت عمرؓ کو اتنے ہی آدمیوں کا علم ہو کیونکہ بہت سے مسلمان اپنا ایمان چھپاے ہوئے بھی تھے۔ اس ضمن میں یہ امر قابل توجہ ہے کہ ابتدائی سہ سال خفیہ تحریک کے دوران میں ۳۳آدمی مسلمان ہوئے۔ بعدازاں علی الاعلان تبلیغ اسلام شروع ہوئی اور اِکا دُکا لوگ مسلمان ہوتے گئے تا آنکہ کفار کی مخالفت شدت اختیار کرگئی اور۵،۶ بعد بعثت میں ۱۰۳ صحابہ کرام کو حبشہ کی طرف دو مرحلوں میں ہجرت کرنا پڑی جن میں سے چند ایک بعد ازاں تشریف لے آئے۔ اس ہجرت سے مکہ مکرمہ میں کہرام مچ گیا۔ مہاجرین میں حضرت عمرؓ کے قبیلہ بنی عدی کے افراد بھی شامل تھے اور اس ہجرت سے حضرت عمرؓ متاثر بھی ہوئے۔ چنانچہ یہ تو ممکن ہے کہ جن لوگوں نے قبول اسلام کا اعلان نہ کیا ہو ان کے بارے میں حضرت عمرؓ کو معلومات نہ ہوں ۔ لیکن یہ کیوں کر ممکن ہے کہ حضرت عمرؓ جیسے باخبر آدمی کو مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کا علم نہ ہو جو ہجرت کرکے حبشہ میں مقیم تھے؟ کیا حضرت عمرؓ کے قول کا مفہوم یہ نہیں ہوسکتا کہ جب وہ قبول اسلام کے لیے دارارقم تشریف لے گئے تو اس وقت وہاں صرف۳۹ آدمی تھے اور حضرت عمرؓ کے آنے سے۴۰ ہوگئے اور یہی حضرات دو صفوں میں مسجد حرام کی طرف نکلے۔ ایک صف میں حضرت حمزہؓ تھے اور دوسری میں حضرت عمرؓ۔ مزیدبرآں اس وقت مکہ مکرمہ میں دس مسلمان عورتیں بھی تھیں اور دیگر صحابہ و صحابیاتؓ اس وقت حبشہ میں بطورِ مہاجرین مقیم تھے۔
جواب

ہجرت حبشہ کے بعد مکے میں جو مسلمان رہ گئے تھے ان کے متعلق میرا خیال یہ ہے کہ وہ سب کے سب دارارقم میں پناہ گزین نہ تھے، بلکہ ان کی ایک تعداد اپنا اسلام چھپاے ہوئے تھی اور ایک تعداد ارقم میں حضورؐ کے ساتھ مقیم تھی۔ حضرت عمرؓ نے انھی کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ ۳۹ تھے اور میری شرکت سے ۴۰ ہوگئے۔ (ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۷۷ء)