خواتین کے لیے کوٹا سسٹم

خواتین تعلیمی، معاشی اور سیاسی طور پر مردوں سے کافی پیچھے ہیں ۔ انھیں آگے بڑھانے کے لیے کوٹا سسٹم کی تجویز پیش کی جاتی ہے۔ اس کے تحت ہر شعبہ میں خواتین کے لیے تیس (۳۰) فیصد یا اس سے زیادہ سیٹیں محفوظ ہوں گی۔ جب مرد اور خواتین ایک سطح پر آجائیں گے تو یہ سسٹم ختم کر دیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس کے اثرات خاندان اور سماج پر کیا پڑیں گے؟
جواب

اگر ریزرویشن یا کوٹا سسٹم کے ذریعے عورت کے مسائل حل ہوں اور اسے سماجی، معاشرتی اور معاشی لحاظ سے اوپر اٹھایا جاسکے تو اس کی مخالفت نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اس کے بعض پہلو غور طلب ہیں ۔ یہاں صرف ملازمت کے پہلو سے دو ایک باتوں کی طرف اشارہ کیاجا رہا ہے۔
آپ کے ہاں مردوں کے لیے روزگار کی صورتِ حال کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ روزگار کی تلاش میں لوگ بیرونِ ملک مسلسل جا رہے ہیں ۔ اگر آپ تیس فی صد یا پچاس فی صد ملازمتیں خواتین کے لیے مخصوص کردیں تو اتنی ہی تعداد میں کام کے قابل مرد مزید بے کار ہوجائیں گے۔ اگر اس وقت چالیس فی صد مرد بے کار ہیں تو اس وقت ان کی تعداد سترّ فی صد ہوجائے گی۔ آپ ان کے لیے اتنے نئے مواقع نہیں فراہم کرسکتے کہ یہ تعداد کم ہوجائے۔
کوٹا سسٹم کی ایک خرابی یہ بھی ہے کہ اس میں بعض اوقات باصلاحیت افراد کو نظر انداز کرکے کم صلاحیت افراد کے ذریعے کوٹا پورا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ریاست کے حق میں مفید نہیں ہے۔
اسلامی ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ معاشی لحاظ سے ضرورت مند خواتین کو روزگار فراہم کرے، لیکن اگر وہ چالیس یا پچاس فی صد ملازمتیں ان کے لیے مخصوص کردے تو خاندان کے نظام پر اس کے منفی اثرات یقینا پڑیں گے۔ اسے صحیح شکل میں باقی رکھنا ممکن نہ ہوگا۔
بہرحال یہ ایک مشکل مسئلہ ہے I.P.S. جیسے اداروں کو اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے کر کوئی لائحۂ عمل ملک و ملت کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔