سور کے بالوں کے برش بناکر فروخت کیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی مسلمان کے لیے اس کا کارخانہ قائم کرنا اور انھیں فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اورایسے شخص کے اس ذریعہ معاش کا کیا حکم ہے؟
جواب
سورحرام قطعی اورنجس العین ہے۔ اس لیے اس کے جسم کے ہرجز کی بیع بھی ناجائز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب،مردار،سوراور بتوں کی بیع کو حرام قراردیاہے۔ اس کی حرمت کی حدیث بخاری ومسلم میں موجود ہے۔ قرآن میں سور کورجس یعنی گندگی کہاگیا ہے۔علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اپنی تفسیر مظہری میں لکھا ہے
اجمعوا علی ان الخنزیر نجس عینہ ولا یجوز بیع شییء من اجزائہ حتی شعرہ وقدکان ابن سیرین لا یلبس خفا خرزبشعرالخنزیرقال ابن ھمام فعلی ھذا لایجوزبیعہ ولا الا نتفاع بہ (ج۳،ص۲۹۹)
’’علما نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ سور نجس العین ہے اور اس کے کسی جز کی یہاں تک کہ اس کے بالوں کی بیع بھی ناجائز ہے۔ ابن سیرین (ایک بڑے درجہ کے تابعی )ایساجوتا استعمال نہیں کرتے تھے جسے سور کے بال سے گانٹھا گیاہواس بناپر نہ اس کی بیع جائز ہے اورنہ اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔‘‘
انھوں نے سورۂ الانعام کی تفسیر میں پھر لکھا ہے
من ثم لایجوز بیع شییء من اجزائہ ولا الانتفاع بہ (ج۳،ص۲۹۹)
’’اور یہیں سے معلوم ہوا کہ اس کے کسی جز کی بیع جائز نہیں ہے اور نہ اس سے نفع اٹھانا جائز ہے۔‘‘
(نومبر ۱۹۷۰ء،ج۴۵،ش۵)