رسالت
محمود عباسی صاحب نے تحقیق مزید کے نام سے جو کتاب لکھی ہے اس کے چند اقتباسات نقل کر رہا ہوں ۔ براہ کرم اس امر پر روشنی ڈالیے کہ جو کچھ اس میں لکھا گیا ہے وہ کہاں تک صحیح ہے۔ اُلجھن یہ ہے کہ تمام سیرت نگار تو آں حضورؐ کے دادا کی وفات کے بعد ابوطالب کو حضورﷺ کا سرپرست تسلیم کرتے ہیں ، مگر محمود عباسی کچھ اور ہی داستان بیان کر رہے ہیں ۔
صفحہ۱۲۵۔ عبدالمطلب کی وفات کے وقت ان کے نو بیٹے زندہ تھے۔ جن میں سب سے بڑے زبیر تھے، وہی قریش کے دستور کے مطابق اپنے والد کے جانشین ہوئے اور انھی کو عبدالمطلب نے اپنا وصی بھی مقرر کیا تھا۔
وَالزُّبَیرُ۔ وَکَانَ شَاعِراً شَرِیفاً وَ إِ لَیہِ أَوصٰی عَبْدُ الْمُطَّلِبِ ({ FR 1702 })
صفحہ۱۲۵۔ زبیر و ابوطالب اور عبداللّٰہ والد ماجد آں حضرت ﷺ یہ تینوں ایک ماں سے حقیقی بھائی تھے۔
صفحہ ۱۲۵۔۱۲۵۶۔ قدیم ترین مؤرخ ابوجعفر محمد بن حبیب متوفی۲۴۵ھ مؤلف کتاب المحبَّر نے الحکام من قریش ثم من بنی ھاشم کے عنوان کے تحت قریش کے تمام خاندانوں میں سے جو لوگ اپنے وقت میں سردار اور حاکم رہے ان کی فہرست درج کی ہے۔ بنی ہاشم میں عبدالمطلب کے بعد زبیر بن عبدالمطلب ان کے بعد ان کے چھوٹے بھائی ابو طالب کے… نام درج کیے ہیں ۔
صفحہ۱۲۶۔ عبدالمطلب کو اپنے اس نیک صفات اور پاکیزہ خصلت فرزند (زبیر) پر فخر و ناز ہونا بجا تھا۔ مرتے وقت انھی کو جانشین کیا۔
صفحہ۱۲۶-۱۲۷۔ حلف الفضول… وہ معاہدہ و حلف ہے جو قریشی خاندانوں اور قبیلوں میں … انھی کی تحریک پر آپس میں عبداللّٰہ بن جدعان کے گھر بیٹھ کر کیا تھا۔ (شرح ابن ابی الحدید)
آں حضرت ﷺ اس موقع پر اپنے چچا (زبیر) کے ساتھ موجود تھے… سن شریف اس وقت آں حضور کا بروایت مختلفہ اٹھارہ سے بیس برس کا بتایا گیا ہے۔
صفحہ۱۲۸۔ اپنے دادا کے انتقال کے بعد آں حضورؐ اپنے ان ہی چچا زبیر بن عبدالمطلب کی کفالت میں رہے، انھوں نے اور ان کی زوجہ عاتکہ بنت ابی وہب بن عمرو بن عائد بن عمران بن مخزوم نے اپنے بچوں سے زیادہ محبت و شفقت سے آپ کی پرورش کی۔
صفحہ ۱۳۲۔ آپ اس عمر کے تھے کہ زبیر بن عبدالمطلب کی وفات کے بعد کسی دوسرے چچا اور رشتے دار کی کفالت سے مستغنی ہوچکے تھے۔
جواب
محمود عباسی صاحب کی عادت ہے کہ مشہور ترین روایات کو ردّ کرکے ایسی روایات تلاش کرتے ہیں جن سے مطلب براری ہوسکے اور اگر یہ بھی نہ ہو تو روایات کو توڑ مروڑ کر اپنے مطلب پر ڈھال لیتے ہیں ۔ جس ابن سعد کی روایت انھوں نے زبیر بن عبدالمطلب کے بارے میں نقل کی ہے اسی ابن سعد نے طبقات میں صفحہ۹۶ پر یہ روایت نقل کی ہے کہ عبدالمطلب کے بعد ابوطالب نے آپؐ کی پرورش اپنے ذمے لی اور وہ اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر آپؐ سے محبت کرتے تھے۔({ FR 2164 }) اس سے ایک صفحہ پہلے ابن سعد نے صفحہ ۹۵ر لکھا ہے کہ عبدالمطلب نے مرتے وقت ابو طالب کو رسول اللّٰہ ﷺ کی حفاظت کرنے کی وصیت کی تھی۔({ FR 2165 }) یہی بات تمام محدثین اور مؤرخین اور سیرت نگاروں نے بالاتفاق لکھی ہے۔ لیکن عباسی صاحب کی علمی خیانت کا حال یہ ہے کہ عبدالمطلب کی جس وصیت کا واقعہ وہ ابن سعد سے نقل کر رہے ہیں وہ دراصل یہ ہے کہ عبدالمطلب نے بنی خزاعہ سے حلف کا جو معاہدہ کیا تھا اس کے بارے میں اپنے بیٹے زبیر کو وصیت کی تھی کہ اس عہد و پیمان کو نباہنا۔ پھر زبیر نے ابو طالب کو اور ابو طالب نے عباس بن عبدالمطلب کو اسی چیز کی وصیت کی۔
ابوجعفر محمد بن حبیب جس کا حوالہ انھوں نے دیا ہے اس نے عبدالمطلب کے بعد منصب ریاست پر زبیر کی جانشینی کا ذکر کیا ہے۔ یہ نہیں لکھا کہ حضور ﷺ کی خبر گیری ان کے سپرد کی گئی تھی۔ انھی دونمونوں سے آپ عباسی صاحب کی صداقت کا اندازہ کرسکتے ہیں ۔ (ترجمان القرآن، فروری۱۹۷۶ء)