عِصمت ِانبیا؊

یہ امر مسلّم ہے کہ نبی معصوم ہوتے ہیں ،مگر آدم ؈ کے متعلق قرآن کے الفاظ صریحاً ثابت کررہے ہیں کہ آپ نے گناہ کیا اور حکم عدولی کی۔جیسے: وَ لاَ تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ) البقرہ:۳۵ ) ’’مگر اس درخت کارُخ نہ کرنا، ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے۔‘‘ کی آیت ظاہر کررہی ہے۔اس سلسلے میں اپنی تحقیق کے نتائج سے مستفید فرمائیں ۔
جواب

نبی کے معصوم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فرشتوں کی طرح اس سے بھی خطا کا امکان سلب کرلیا گیا ہے۔بلکہ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ نبی اوّل تو دانستہ نافرمانی نہیں کرتا اور اگر اس سے غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو اس غلطی پر قائم نہیں رہنے دیتا۔
پھر یہ بات بھی لائقِ غور ہے کہ حضرت آدم؈ سے جو نافرمانی سرزد ہوئی تھی،وہ نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے سے پہلے کی ہے اور قبل ِ نبوت کسی نبی کو وہ عصمت حاصل نہیں ہوتی جو نبی ہونے کے بعد ہوا کرتی ہے۔ نبی ہونے سے پہلے حضرت موسیٰ ؈ سے بھی ایک بہت بڑا گناہ ہوگیا تھا کہ انھوں نے ایک انسان کو قتل کردیا۔ چنانچہ جب فرعون نے ان کو اس فعل پر ملامت کی تو انھوں نے بھرے دربار میں اس بات کا اقرار کیا کہ فَعَلْتُہَآ اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ ( الشعراء:۲۰ ) ’’اس وقت وہ کام میں نے نادانستگی میں کر دیا تھا۔‘‘ یعنی یہ فعل مجھ سے اس وقت سرزد ہوا تھا جب راہِ ہدایت مجھ پر کھلی نہ تھی۔
مختصراً یہ بات اصولی طورپر سمجھ لیجیے کہ نبی کی معصومیت فرشتے کی سی معصومیت نہیں ہے کہ اسے خطا اور غلطی او رگناہ کی قدرت ہی حاصل نہ ہو۔ بلکہ وہ اس معنی میں ہے کہ نبوت کے ذمہ دارانہ منصب پر سرفرا ز کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ بطورِ خاص اس کی نگرانی وحفاظت کرتا ہے،اور اسے غلطیوں سے بچاتا ہے،اور اگر کوئی چھوٹی موٹی لغزش اس سے سرزد ہوجاتی ہے تو وحی کے ذریعے سے فوراًاس کی اصلاح کردیتا ہے تاکہ اس کی غلطی ایک پوری اُمت کی گمراہی کی موجب نہ بن جائے۔ (ترجمان القرآن، جولائی،اکتوبر:۱۹۴۴ء)